کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں

ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں

حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز

بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں

یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے

آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں

کچی مٹی کی مہک اب بھی لبھاتی ہے مجھے

سنگ مر مر سے مگر آتی یہ مہکار نہیں

آئینہ دیکھ لیا کرتا ہوں ہر روز کہ میں

ہوں جدا سب سے مگر خود سے تو بیزار نہیں

تم جو آجاو گے ملنے تو کھلا لیں گے گل

آو تو ملنے کہ ہم اتنے بھی بیکار نہیں

میں کوئی عشق ہوں ہے جس سے تغافل ہی روا

حسن کیوں میری طرفداری پہ تیار نہیں

تیری فرقت بھی گوارا نہیں میرے دل کو

اور ترے وصل کا یارا مجھے زنہار نہیں

تھی کبھی اپنی امارت کی زمانے میں دھوم

آج دو پیسے کی باقی رہی سرکار نہیں

سر فروشی کی تمنا میں لئے ہاتھوں پہ سر

آئے ہیں ہم سر میداں لئے ہتھیار نہیں

میں ہی ہر بار سرِ دار انا الحق بولوں

کیا کوئی اور یہاں صاحبِ کردار نہیں

ہم کو معلوم ہے دے گا نہ ہمیں داد کوئی

ہم غزل خواں ہیں میاں کوئی گلوکار نہیں

پہلے تو گھر میں فقط چھت کی کمی تھی صائب

اب تو حد یہ ہے کہ باقی در و دیوار نہیں

۸ فروری ۲۰۱۷


موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/06/08
ابو محمد

ghazal

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی