کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا

نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا

...

مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے

پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا

.....

پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر

کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا

......

خود اپنے آپ سے ہوں گریزاں میں رات دن

خود سے مجھے گریزاں جو جانا کوئی تو کیا

.....

زندہ ہی رہ سکے ترے کوچے میں خیر ہے

بیمار ہو سکے یہاں اچھا کوئی تو کیا

....

جنجال جاہ و مال سے فرصت کسے ملی

بحر خطا کا رمز سمجھتا کوئی تو کیا 

....

صائب کہے گا اپنا خلف ہم کو شان سے

اجداد میں سے ہو گیا زندہ کوئی تو کیا

موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/02/17
ابو محمد

ghazal saieb

صائب غزل

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی