کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
حقیقت ایک ہے وہ تو ہے باقی افسانہ
خیال و خواب کی دنیا سے کیا شغف ان کو
شعور بخش دے جن کو شراب مستانہ
میں سن کے آیا ہوں تیری سخاوتوں کا بیاں
لنڈھا شراب نہ تک یونہی میرا پیمانہ
رقیب حسن نے سجدے میں سر رکھا تو کھلا
ریاضتوں کا ثمر ہے ادائے رندانہ
حجاب غیر سے واجب ہے اے پری وش پر
اٹھا نقاب کہ محرم سے کیسا شرمانا
نظر پڑے جو ان آنکھوں کو نقش پا تیرا
ادا کروں میں اسی سجدہ گہ پہ شکرانہ
یہ عشق ایسے مری چاہتوں کا مان رکھے
رہ وفا میں شہادت کا پاؤں پروانہ
تمام دہر کی تاریکیاں ہیں یوں مایوس
تمہاری یاد سے روشن ہے دل کا کاشانہ
صائب جعفری 
۷ اپریل ۲۰۲۰
قم

موافقین ۱ مخالفین ۰ 20/04/11
ابو محمد

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی