بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
Saturday, 11 April 2020، 01:32 AM
بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
حقیقت ایک ہے وہ تو ہے باقی افسانہ
خیال و خواب کی دنیا سے کیا شغف ان کو
شعور بخش دے جن کو شراب مستانہ
میں سن کے آیا ہوں تیری سخاوتوں کا بیاں
لنڈھا شراب نہ تک یونہی میرا پیمانہ
رقیب حسن نے سجدے میں سر رکھا تو کھلا
ریاضتوں کا ثمر ہے ادائے رندانہ
حجاب غیر سے واجب ہے اے پری وش پر
اٹھا نقاب کہ محرم سے کیسا شرمانا
نظر پڑے جو ان آنکھوں کو نقش پا تیرا
ادا کروں میں اسی سجدہ گہ پہ شکرانہ
یہ عشق ایسے مری چاہتوں کا مان رکھے
رہ وفا میں شہادت کا پاؤں پروانہ
تمام دہر کی تاریکیاں ہیں یوں مایوس
تمہاری یاد سے روشن ہے دل کا کاشانہ
صائب جعفری
۷ اپریل ۲۰۲۰
قم
20/04/11