اگر دل میں بسا تیرے خدا ہے(غزل)
اگر دل میں بسا تیرے خدا ہے
تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے
مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے
کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے
خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے
تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے
زمانے کو فقط اتنا پتا ہے
کہ ہم دونوں میں کوئی رابطہ ہے
جدا ہوجانے کا تو نے کہا ہے
مجھے منظور تیرا فیصلہ ہے
مجھے دھتکار کے جب جا رہا ہے
تو کیوں مڑ مڑ کے مجھ کو دیکھتا ہے
بہت ہی مطمئن ہے میرا چہرہ
مگر دل میں مرے محشر بپا ہے
اندھیرا، آنکھ، دل، تنہائی، یادیں
مسلسل کرب کا اک سلسلہ ہے
میرا غم بانٹنے آئے گا کوئی
مجھے کب ایسا کوئی آسرا ہے
قیامت یہ نہیں وہ دلربا تھا
قیامت یہ ہے اب بھی دل ربا ہے
بجا لاتا ہوں ہر ہچکی پہ میں شکر
کوئی تو ہے جو میرا سوچتا ہے
ابھی سے اشک برسانے لگے ہو
ابھی تو درد دل کی ابتداء ہے
کہا تھا اتنے وعدے مت کیا کر
کہ حاصل انکا کیا ہے؟ فاصلہ ہے
بہت رنجور ہے اندر سے صائب
مگر ظاہر بظاہر مسخرہ ہے
۶ اگست ۲۰۱۵ کراچی