کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے

کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے


بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم

خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے

یاس سے تکتے رہے اہل جنوں رختِ سفر

نام سارے ہی بدل ڈالے گئے محضر کے


درد و غم، یاس و الم، حسرت و نوحہ، گریہ

ٹکڑے کتنے ہوئے اس خاک کے اک پیکر کے


اتنے بےباک تو ہم پہلے کبھی تھے ہی نہیں

کتنا ہنستے ہیں جو سنتے ہیں بیاں محشر کے


ایسا غم کیش ہے سینہ  مرا صائب کہ یہاں

موت رقصاں ہے پہ آثار نہیں ہیں ڈر کے

---- صائب جعفری


نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی