بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے (غزل)
Thursday, 28 February 2019، 02:00 AM
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے
یاس سے تکتے رہے اہل جنوں رختِ سفر
نام سارے ہی بدل ڈالے گئے محضر کے
درد و غم، یاس و الم، حسرت و نوحہ، گریہ
ٹکڑے کتنے ہوئے اس خاک کے اک پیکر کے
اتنے بےباک تو ہم پہلے کبھی تھے ہی نہیں
کتنا ہنستے ہیں جو سنتے ہیں بیاں محشر کے
ایسا غم کیش ہے سینہ مرا صائب کہ یہاں
موت رقصاں ہے پہ آثار نہیں ہیں ڈر کے
---- صائب جعفری
19/02/28