کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


فروغِ حسن سے دل کی کسک کا دور ہوجانا

کہاں ممکن شبِ دیجور کا کافور ہوجانا

کب آگہ تھا جمال ِ حسن اپنی قدر و قیمت سے

سکھایا عشق ہی نے حسن کو مغرور ہوجانا

ہوا جلوہ ہی پوشیدہ نگاہوں سے مری ورنہ

کہاں مشکل تھا اس دل کے لئے اک طور ہوجانا

عجب تاثیر رکھتی ہے شب غم کی یہ حالت بھی

نوائے درد سے دل کی فضاء معمور ہوجانا

ہے جوئے شیر لانے سے بھی مشکل معتبر ہونا

بہت آسان ہے بے کار میں مشہور ہوجانا

مثالِ ماہتاب و ابر گذری زندگی اپنی

"کبھی چلنا کبھی رکنا کبھی مستور ہوجانا"

رسوماتِ زمانہ سے ہوں نالاں اس لئے اے دل

کہ یہ رسمیں سکھاتی ہیں مجھے مجبور ہوجانا

ہزاروں ہی نے کھینچا حسن کا نقشہ مگر صائب

نہیں ممکن شعورِ عشق کا مذکور ہوجانا

۲۵ دسمبر ۲۰۱۲ 

مشہد ایران



 یہ مصرع پی ٹی وی کے ایک ڈرامے میں سنا تھا بعد میں اس پر تضمین ہوگئی

موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/04/22
ابو محمد

صائب غزل

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی