کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے

زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے


ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے

دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے


یہی ہے رسم ازل سے گلوں کو خار کے ساتھ

نہ چاہتے ہوئے ، رشتہ نبھانا پڑتا ہے


خزاں گَزیدہ  کو اگلی  خزاں کے آنے تک

گلوں کے داغ سے دامن بچانا پڑتا ہے


خرد کو، ہوش کو، ہستی کو، فکر کو، دل کو

اس ایک عشق میں کیا کیا گنوانا پڑتا ہے


تمہیں خبر ہے قیامت بھی کانپ جاتی ہے

جگر کو تھام کے جب مسکرانا پڑتا ہے


وجود رکھتا ہوں میں بھی دیارِ ہستی میں

مجھے یہ روز تمہیں کیوں بتانا پڑتا ہے


کبھی جو بھولے سے ہوجاوں خوش تو اے صائب

خود اپنے دل کو بھی پہروں منانا پڑتا ہے

---صائب جعفری

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی