کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی 

 شعری نشست میں پڑھی گئی غزل

ـــــــــــــــــــ

صائب جعفری

ــــــــــــــــــــ

کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے

مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے

کیوں یہ احساس ہونے لگا ہے اب خداوند بھی خشمگیں ہے

وہ ادھر مضطرب ہیں ادھر ہم راہ ملنے کی ملتی نہیں ہے


ہم تڑپتے رہے اور تو نے دست قاتل کے بوسے لئے ہیں

تیری قسمت پہ اے چوبِ خنجر آفریں آفریں آفریں ہے


پاس اپنے بلایا یا جھڑکا ماری ٹھوکر یا سینے لگایا

بات پردے کی پردے میں رکھنا تیرا محبوب پردہ نشیں ہے


تیری محفل میں کیا کوئی بولے سامنے تیرے لب سامنے تیرے لب کون کھولے

تیری گفتار شیریں عسل سی خامشی بھی تری آنگبیں ہے


رنگ لائیں گی میری دعائیں ختم ہوگی یہ پردہ نشینی

بے حجابانہ آئیں گے ملنے اپنے ہونے یا اس پر یقیں ہے


خود خیالات جاتے ہیں تیری سمت جب پوچھتا ہے یہ کوئی

جس پہ قرباں ہو چشمِ غزالاں آنکھ ایسی کوئی سرمگیں ہے


قلب سینے میں جیسے تپاں ہے جیسے موتی صدف میں نہاں ہے

جیسے بدلی میں ہے ماہ تاباں ایسے پردے میں وہ مہ جبیں ہے


اشکِ فرقت کی شمعیں جلا کر آن بیٹھے ہیں در پر تمہارے

اٹھ کے جائیں کہاں یہ بتا دو تم سا دنیا میں کوئی کہیں ہے؟


تھک نہ جائیں کہیں روتے روتے جان دے دیں نہ ہم سسکیوں میں

اب گلا رندھ چکا ہے ہمارا اور ہنسنے لگا ہم نشیں ہے


روبرو ان کے جب آپ بیتی کہنے بیٹھے تو بولے وہ صائب

خونچکاں آئینہ غم کا لیکن داستاں آپکی دل نشیں ہے

ـــــــــــــــــــــــــــ

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی