زمانہ پارسا ہوجائے گا کیا غزل نذر جون ایلیاء
نذر جون ایلیاء
زمانہ پار، سا ہو جائے گا کیا
فسانہ برملا ہوجائے گا کیا
بنے ہیں آشنا دشمن ہمارے
تو دشمن آشنا ہو جائے گا کیا
اگر ابلیس سے ہوجائے ان بن
بشر بے آسرا ہوجائے گا کیا
یہ مانا آپ اس کے ساتھ ہونگے
مگر وہ آپ کا ہوجائے گا کیا
جھکا دوں گا ترے قدموں پہ میں سر
بتا پہلے، خدا ہوجائے گا کیا
تعلق ترک ہوجائے گا لیکن
بغیرِ چوں چرا ہوجائے گا کیا
جسے دنیا کہے تصویر میری
کوئی ایسا بھلا ہوجائے گا کیا
بتوں کے ساتھ گذری زندگانی
ہمارا فاتحہ ہوجائے گا کیا
رگ و پے میں ہوس کی آگ بھر کر
بدن بھی قلب سا ہوجائے گا کیا
لٹاو گے اگر اشکوں کے موتی
مرا قرضہ ادا ہوجائے گا کیا
ناچاٹے جائیں گر حاکم کے تلوے
تو حاکم دیکھنا ہو جائے گا کیا
میں اپنا لوں سحر خیزی کی عادت
مگر پھر رت جگا ہوجائے گا کیا
مصلیٰ میں اگر پھر سے بچھا لوں
تُو پھر سے پارسا ہوجائے گا کیا
نہ ہوں شمعیں فروزاں تا دمِ صبح
تو پروانہ خفا ہو جائے گا کیا
خود اپنے آپ کو تاکا ہے اس بار
نشانہ اب خطا ہوجائے گا کیا
وہ جس نے پیڑ سے ناتا ہو توڑا
وہ پتہ پھر ہرا ہوجائے گا کیا
اتارو نقل صائب جون کی پر
سخن کچھ جون سا ہوجائے گا کیا
۱۶ مارچ ۲۰۱۷ء، ۱۷ جمادی الآخر ۱۴۳۸