کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

غزل

بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو

ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو

رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے

جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو

جس کو گستاخِ محمد کی ہتک گذرے گراں

کیا کہا جائے گا اب جانے اس انجانے کو

کیسے دیوانے ہیں یہ لوگ میری بستی کے

کیوں یہ دیوانہ کہا کرتے ہیں دیوانے کو

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

ہاں بہت اچھا ہے پر دل کے ہے بہلانے کو

خود ابھی نونِ نصیحت سے بھی آگاہ نہیں

بن کے ناصح جو چلے آئیں ہیں سمجھانے کو

زندگی ایک تسلسل سے سزا ان کو لگی

کاغذی پھول کھلاتے تھے جو مہکانے کو

پھر اناالحق کی صدا دینی پڑے گی کہ یہاں

کوئی تیار نہیں دار پہ چڑھ جانے کو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جاتے کبھی کے صائب

راہ میں بیٹھ گئے ہوتے جو سستانے کو

۱ مئی ۲۰۱۷

موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/06/08
ابو محمد

ghazal saieb

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی