آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلا کر( غزل)
آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر
بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر
ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں
دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر
خوں پی رہا ہوں صدیوں سے اپنی حسرتوں کا
مے پینے کی ہوس میں بارہ دری سجا کر
اللہ رکھے قائم ان مسکراہٹوں کو
گو کیف لے رہے ہیں میری ہنسی اڑا کر
اک دو گھڑی نہیں ہم عرصے تلک ہیں روئے
محفل میں تم سے مل کر کچھ دیر مسکرا کر
تم ہی بتا دو کوئی راہِ حل اس کی جاناں
نقشِ قدم تمہارے کیسے رکھوں چھپا کر
جاتے ہو جاو لیکن اتنا تو کہتے جاو
پڑھ دو گے فاتحہ تم میری لحد پر آ کر
میں تم سے ہاتھ اٹھا لوں ایسا کہاں ہے ممکن
تم دیکھ تو چکے ہو یہ دوریاں بڑھا کر
مرضی ہے یہ تمہاری کاٹو اسے یا بھر دو
کھینچوں گا اب نہیں میں دستِ طلب بڑھا کر
مٹ جاتی کب کی دنیا سے یہ زبانِ اردو
ہم نے بچا لی صائب قومی زباں بنا کر
۲۰ مارچ ۲۰۱۷ء، ۲۱ جمادی الآخر ۱۴۳۸ھ
قم المقدسہ