ہمیں جو بھی ملا ہے
Friday, 4 February 2022، 09:38 PM
سخن نا آشنا ہے
ہمیں جو بھی ملا ہے
کوئی روٹی کی خاطر
شرافت بیچتا ہے
یہاں قائم ازل سے
الم کا سلسلہ.ہے
سحر فائدہ کیا
کہ دل تو بجھ چکا ہے
خموشی کا تسلسل
بہت صبر آزما ہے
فراق و ہجر کی کہہ
بتا مت وصل کیا ہے
تصور میں جو آئے
بھلا وہ بھی خدا ہے؟
بتایا کربلا نے
لہو بھی بولتا ہے
تجھے مرنا پڑے گا
کہ تو سچ بولتا ہے
یہ صائب کا فسانہ
فسانہ عشق کا ہے
Dec 24,2021
12:33 AM
22/02/04