کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی
اب جہاں میں اس طرح سے سوچتا کوئی نہیں
تا نہ کوئی حرف آئے آپ پر بس اس لئے
اب لبِ بسمل پہ آئے گی صدا کوئی نہیں
اے مسیحا صرف تجھ کو دیکھنے آتا ہوں میں
ورنہ مجھ کو ہے خبر میری دوا کوئی نہیں
آگئے بہر عیادت کس قدر وہ زود تر
روح کا جب رابطہ دل سے رہا کوئی نہیں
دہر میں قصہ ہمارے عشق کا مشہور ہے
گرچہ کرداروں کو اس کے جانتا کوئی نہیں
اضطراب شوق میں تا عمر جاگے ہم مگر
تا دمِ مرگِ وفا آیا گیا کوئی نہیں
جانےکیوں اب بھی مجھے سب پر بہت ہے اعتبار
جانتا یہ بھی ہوں میں اب پارسا کوئی نہیں
رنج و غم ہے درد ہے حسرت، الم، الجھن، فراق
کون کہتا ہے کہ میرا آسرا کوئی نہیں
جانب منزل چلا تھا لے کے کشتی زیست کی
کس طرح ساحل ملے جب ناخدا کوئی نہیں
یاں نمائش زخم کرنا زخم دل کی ہے محسن عبث
یاں کسی بھی لب پہ آئے گی دعا کوئی نہیں
29 مئی 2011
کراچی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی