کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے

دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے

تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد

اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے

بعد از غمِ پیغمبرِ خاتم پئے زہرا

دکھ درد علی کے ہیں اور اشکوں کی لڑی ہے

کس طرح دیا جائے امامت کو تحفظ

دروازہ و دیوار سے یہ بات کھلی ہے

پہلو کو.سنبھالے یا بچائے وہ علی کو

بنتِ شہِ لولاک پہ کیا سخت گھڑی ہے

اس دھر میں کیا عشقِ علی کے ہیں تقاضے

زہرا یہ جہاں والوں کو سِکھلا کے گئی ہے

سہہ جانا ہراک ظلم ولایت کی بقاء کو

یہ رسم زمانے میں ترے دم سے چلی ہے

امت کے مظالم کا.بیاں ہے یہ وصیت

تاریکی میں دفنانے کی.زہرا نے.جو کی ہے

صائب مِرے دن رات کا  بس یہ ہے خلاصہ

میں ہو غم زہرا ہے ان آنکھوں کی نمی.ہے

۲۲ جنوری ۲۰¹۹

نظرات  (۱)

جزاک اللہ خیرا کثیرا
اعظم اللہ اجورنا و اجورکم
پاسخ:
Shukriya

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی