قتل ہوگئے علی نقی (نوحہ)
نوحہ
ہئے نبی کی آل و بے کسی
،قتل ہو گئے علی نقی
پھر سے کربلا بپا ہوئی
قتل ہو گئے علی نقی
مبتلا قلق میں بوتراب
فاطمہ کے دل کو اضطراب
گلشنِ نبی کا اک گلاب
سامرہ میں ہو گیا خراب
چل گئی ہے دین پر چھری
کربلا میں تہلکہ مچا
اور نجف کو آیا زلزلہ
روضہِ رسول ہل گیا
قبر کا چراغ بھی بجھا
کیسی یہ قیامت آ گئی
معتمد کے زہر کا اثر
ایسا کچھ ہوا امام پر
ضعف ہو گیا تھا اس قدر
بالیں سے اٹھاتے نہ تھے سر
آگیا تھا وقت آخری
زرد ہو گیا تھا تن تمام
جاں بلب تھے کرب سے امام
دیکھنے کو آئے خاص و عام
رو دیئے پئے شہِ انام
آ گئی فراق کی گھڑی
تھا لبوں پہ ذکرِ کبریا
انکھوں میں تھا رنج و غم بھرا
یک بیک جو یاد آ گیا
شاہِ کربلا کا ماجرا
رو دیئے تڑپ کے آپ بھی
ہائے وہ غریب وہ حسین
جو رسول کی تھا زیب و زین
قلب فاطمہ کا تھا جو چین
تھا جو نورِ فاتحِ حنین
کیا مصیبت آپ پر پڑی
تنہا دشت میں گلِ نبی
پاس جس کے تھا نہیں کوئی
حلق پر تھی شمر کی چھری
کیا امام کی تھی بے کسی
آپ کے ہیں پاس عسکری
غیض میں ہے عرشِ ذوالجلال
قدسیوں کو ہے سوا ملال
غم سے عسکری ہوئے نڈھال
کٹ گئی اک اور شاخِ آل
شمع دیں کی اور اک بجھی
صائب آج کیسا ہے مزاج
چرخ پر گہن میں ہے سراج
سامرا میں حزن کا ہے راج
رو رہے ہیں خود رسول آج
دیتے ہیں صدا سبھی یہی
قتل ہو گئے علی نقی
قتل ہو گئے علی نقی
اپریل ۲۰۱۷، قم المقدس