کفر و نفاق و شرک کے مرگ و مفر کا نام(منقبت)
.
۱.کفر و نفاق و شرک کے مرگ و مفر کا نام
شعبان ہے لقائے خدا کے سفر کا نام
۲.عالم بعرض وسعتِ شوقِ وصالِ یار
ہے نفسِ مطمئنہ کی فتح و ظفر کا نام
۳.خونِ دلِ بتول نے پھر جان ڈال دی
تھا رو بہ مرگ عظمت نوعِ بشر کا نام
۴.رکّھا خدا نے زینب و حسنین شان سے
بنت نبی کے سجدۂ گامِ سحَر کا نام
۵.تصویرِ مصطفیٰ علی اکبر کا ہے خطاب
عبّاس مرتضیٰ کے ہے نقشِ دگر کا نام
۶.ابھری تخیئلات میں عباس کی شبیہ
تو محو ذہن سے ہُوا شمس و قمر کا نام
۷.جو عشق کی نگاہ ہو پیدا نظر پڑے
قلبِ فرات پر ہے رقم شیرِ نر کا نام
۸.جنّت بھی روز و شب اسے دیکھے ہے رشک سے
کرب و بلا ہے شاہ کے حسنِ نظر کا نام
۹.دوزخ سے دی رہائی کیا خلد کا مکیں
حر، یہ تو ہے حسین کے ادنیٰ ہنر کا نام
۱۰.خطبہ علی کی بیٹی کا دربارِ شام میں
ہے آتشِ عذابِ خدا کے شرر کا نام
۱۱.ایماں کاجز تبرّا ہے ورنہ بفیضِ عشق
فرصت کہاں کہ لیجے کسی بد گُہَر کا نام
۱۲.اسلام کو جو کفر کے شر سے بچا رکھے
سیّد علی ہے دین کی ایسی سپر کا نام
۱۳.پھر کچھ سوال مجھ سے فرشتے نہ کرسکے
آیا لبوں پہ قبر میں جب چارہ گر کا نام
۱۴. اے کاش ہو ظہورِ امامِ زماں کی صبح
صائب کی آہِ نیم شبی کی سحر کا نام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*سید ابومحمد صائب جعفری*
۱۹ شعبان ۱۴۳۸ ہجری
۱۶ مئی ۲۰۱۷
قم المقدس..ایران
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ