کھل رہا ہے دنیا پر مہر نور کا در بھی(نعتیہ منقبت)
کُھل رہا ہے دنیا پر مَہر ِ نور کا در بِھی
وجد میں ہے خالق کے مِہر کا سمندر بھی
مل رہا ہے عالم کو مژدہِ حیاتِ نو
اور قدرتِ حق کا سج رہا ہے محضر بھی
یہ پیام آزادی دیتی ہے غلاموں کو
یعنی عیدِ مبعث ہے بے کسوں کی یاور بھی
چیختا ہے مابین آسماں ، زمیں ابلیس
دھن رہی ہے سر اپنا شیطنت کی صرصر بھی
ہوگئی ہے اقراء سے ابتداء ہدایت کی
در پہ آن رگڑیں گے اب جبیں سخنور پر بھی
لا الہٰ کا اعلاں ہوچکا ہے ، کچھ دن میں
اہلِ شر کو مل جائے گا جواب ابتر بھی
کربلا غدیر اور یو م الستُ کی مانند
جلوہِ ولایت ہے بعثتِ پیمبر بھی
وہ حبیبِ داور جو عبدیت کا پیکر ہے
ہے وجودِ یزداں کا وہ جہاں میں مظہر بھی
انتہائے خلقت پر جو شفیع ہے وہ ہی
ابتدائے خلقت کے واسطے ہے مصدر بھی
پوچھا کیا ملا اسریٰ میں تو یہ نبی بولے
ایک ہو کا عالم ۔ ہاں ۔ نطق شیر داور بھی
عرش پر ملا احمد کو بشکلِ زہرا ہے
حاصلِ ریاضت بھی، حاملِ مقدر بھی
امتحانِ عالم سے کامیاب وہ گذرا
جس کو مصطفیٰ کے ہمرہ ملے ہیں حیدر بھی
ان گنت خلائق میں بس بنِ ابوطالب
نفسِ مصطفیٰ ٹھہرا، نفسِ ربِ اکبر بھی
معجزہ یہ نعلینِ شہ کی دھول کا دیکھا
دل کو کر دیا طاہر، سانس کو معطر بھی
میں ہی یاں پہ ہوں صائب نعت میں مگن ورنہ
واں پہ منتظر میری خلد بھی ہے کوثر بھی
۲۶ رجب ۱۴۴۰، ۲ اپریل ۲۰۱۹