خدا کی معرفت جب حیدرِ صفدر سے ملتی ہے (منقبت)
خدا کی معرفت جب حیدرِ صفدر سے ملتی ہے
تو پھر توفیقِ عشقِ مرتضیٰ داور سے ملتی ہے
عجب یہ ربط ہے کعبہ کی حرمت اور ولایت میں، سزا دونوں کے منکر کو سدا پتھر سے ملتی ہے
بطورِ ارمغاں، دینِ نبی اور قلبِ مومن کو
حیات جاوداں پالان کے منبر سے ملتی ہے
خمینی، خامنہ ای، سیستانی وہ ہی بنتے ہیں جنہیں دولت عمل کی آپ کے محضر سے ملتی ہے
اگر ہو ساغرِ دل عارف خم شیشہِ حق میں
" شرابِ حبِّ حیدر دستِ پیغمبر سے ملتی ہے"
سخن کو تولئے نہجِ بلاغہ کے ترازو میں
کہ ہر گفتار کی تہذیب اس دفتر سے ملتی ہے
مرے مولا کرم کی اک نظر اس مشتِ خاکی پر کہ ان روزوں ہوائے دہر کچھ محشر سے ملتی ہے
زمینِ شعر پر رکھ کر بساطِ آسماں صائب
ہمیں دادِ سخن خود خالقِ حیدر سے ملتی ہے
۳۰ اگست ۲۰۱۸ قم المقدس
۲۰۰۲ میں اپنی زادگاہ شہر کراچی کی ایک محفل کے لئے اسی طرحی مصرع پر کلام لکھا تھا بعدہ ۲۰۱۸ میں دوبارہ اسی مصرع پرکلام لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی