کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

امام علی نقی علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ برتاؤ

مقالہ نگار: سید صائب جعفری

حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران

سال ۲۰۲۲/۱۴۴۳

مقدمہ

 ہمارے آئمہ علیہم السلام کی تمام تر  سیاسی اور سماجی زندگی اسلام دشمن عناصر  کے مقابلہ  میں اسلام کی حفاظت میں گذری۔  آئمہ علیہم السلام چونکہ  کامل انسان ہیں لہذا ان کا قول، فعل اور تقریر الہی اقدار کے بیان پر مشتمل ہے اور باقی انسانوں کے لئے حجت ہے۔ دین پر کاربند ہونے اور سماجی و سیاسی احوال پر توجہ دینا تمام آئمہ کی زندگی کا مشترک طرہ امتیاز ہے۔ 

آئمہ کی زندگی کا ایسا ہی ایک مشترک پہلو غالیوں  اور ضعیف العقیدہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں واضح ہے وہ یہ کہ غالیوں کے بہت سے گروہ امام  محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں دنیا کمانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئمہ اہل بیتؑ کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ اس کام کے لئے اور اپنے مقصد کو جلد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا اور آئمہ کو مقام نبوت  بلکہ الوہیت تک پہنچا دیا۔ 

اس گروہ کی ان حرکتوں سے نمٹنے کے لئے ہر امام نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا تاکہ ان کی غلط تبلیغ سے اسلام کے دامن کو اور مسلمانوں محفوظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں امام علی نقی علیہ السلام نے بھی کچھ عمل اقدامات کئے  تاکہ ان غلط عقائد کو کم ترین درجہ تک لے جایا جاسکے اس طرح سے کہ معاشرہ میں کوئی ہرج و مرج کی کیفیت پیدا نہ ہو۔اس کے باوجود بعض مقامات پر امام علیہ السلام کو بہت سختی سے بھی کام لینا پڑا اور کئی مقامات پر آپ علیہ السلام نے اس گروہ سے برأت کا اظہار بھی کیا۔امام ؑ نے ہر موقع پر یہی کوشش کی کہ اسلام اور تشیع کے دامن پر اس منحرف گروہ کی وجہ سے کوئی داغ نہ آئے۔

یہ مقالہ بھی اسی سلسلہ میں تصنیف کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام کے دور کی سیاسی اور سماجی کیفیت اور حالت کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے غالیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اس کی تحقیق کی جائے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واضح کیا جائے کہ امام علیہ السلام نے کس طرح تشیع کی سرحدوں کو تمام منحرف العقیدہ فرقوں کے عقائد سے جدا  کرکے واضح کیا۔

اس  مقالہ کے لئے عربی اور فارسی کتب اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ لہذا حوالہ جات کو اردو تراجم کے صفحات کی بنیاد پر نہ جانچا جائے بلکہ اصل منابع کی جانب رجوع کیا جائے جن کی تفصیلی فہرست مقالہ کے آخر میں درج کی جائے گی۔

مسئلہ کا بیان

خدا وند متعال اور رسول گرامی قدر ﷺ نے اپنے اہل بیتؑ کو  امت اسلامیہ کو انحرافات کے بھنور سے نکالنے کے لئے چنا تھا۔ ان آئمہ کی ہدایت آمیز گفتگو  کو سن  کر اس پر عمل کرنا ہی وہ واحد راستہ جو انسان کو ہدایت یافتہ بنا سکتا ہے۔ 

پیغمبرﷺ اور آئمہؑ کا ایک کلی منصوبہ، اسلام اور عقائد اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت تھا۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے روز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ رسولﷺ کے بعد ہر ایک امام نے اپنے زمانے کی مخصوص شرائط کے اعتبار سے اس منصوبہ کو آگے بڑھایا۔

امام علی نقی علیہ السلام کا زمانہ استبداد اور گھٹن سےمملو تھا۔ حکومتی کارندوں اور جاسوسوں کی ہر وقت کی کارستانیوں کے سبب امام علیہ السلام اسلامی ثقافتی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس لحاظ سے امام نقیؑ کا زمانہ امام باقر اور امام صادقؑ کے زمانے سے زیادہ پرآشوب کہا جاسکتا ہے۔

امام نقیؑ  کے دور کی اہم ترین خصوصیت، امام علیہ السلام کا اپنے دور کے انحرافی فرقوں اور شخصیات کے ساتھ برتاؤ ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا دور امامت قسم قسم کے عقیدتی اور فکری فرقوں کے ظہور کا دور ہے۔ اس دور میں فقہ، اصول، کلام اور تفسیر کے نئے نئے مذاہب رونما ہوئے۔ یہی دور تھا کہ جس میں بہت سے الحادی گروہ بھی ظاہر ہوئے  اور انہوں نے شیعوں کے عقائد کو پوری طرح سے مسخ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس کام کے لئے ان گروہوں نے تفسیر بالرائے اور احادیث میں تحریف کا سہارا بھی لیا۔ ان تمام انحرافی فرقوں سے مذہب حقا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری امام علی نقی علیہ السلام کی کاندھوں پر تھی۔

امام علیہ السلام کے دور میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فساد کی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔  اس کام میں غالیوں کے فرقہ پیش پیش تھے۔ اسی مقالہ میں ان شاء اللہ ہم  غالیوں کے عقائد اور ان کے فکری تانوں بانوں کی تحقیق کے دوران واضح کریں گے کہ ان کے عقائد اور ان کا کلام اہل بیت کے نورانی کلام کے بالکل خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ اپنے عقائد کے پرچار اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے سے ان غالیوں کا مقصد سادہ لوح عوام کو اپنی جانب کھینچ کر شیعوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔

اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دئیے جاسکیں۔

۱۔ غالی کون ہیں اور ان کے اہم ترین عقائد کیاہیں؟

۲۔ امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ان غالیوں کی سرگرمیاں کیا تھیں؟

۳۔ امام  علی نقی علیہ السلام نے ان غالیوں سے کس طریقہ سے مقابلہ کیا؟


 

امام نقی  علیہ السلام کے دور کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی  حالات

شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق، امام نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیمہ ذیحجہ ۲۱۲ ھ۔ق    کو ہوئی (کافی جلد ۱ ص ۵۲، الارشاد صفحہ ۳۲۷، الکامل فی التاریخ جلد۷ صفحہ۱۸۹)۔ خطیب بغدادی نے آپ علیہ السلام کی ولادت  ماہ رجب ۲۱۴ ہجری لکھی ہے( تاریخ بغداد جلد ۲ صفحہ ۵۷)۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا جن کو سوسن بھی کہا جاتا تھا اور امام حسن عسکری آپ ہی کے بطن سے تھے( اثبات الوصیہ، صفحہ ۲۲۰، فصول المھمہ صفحہ ۲۷۷)۔ امام  نقی علیہ السلام کو ۲۳۳ ہجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہمراہ سامرا منتقل کیا گیا تھا اور  آپ ؑ اپنی شہادت تک سامرا میں ہی مقیم رہے۔

امام نقی علیہ السلام کے  دور امامت میں چھ عباسی سلاطین حکمران رہے۔ معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز ۔ تاریخی شواہد کی رو سے  متوکل عباسی شیعوں کا سب سے زیادہ سخت دشمن تھا۔ 

امام علیہ السلام کا دور چند ایک نقطہ نگاہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ امامؑ کے دور کی شرائط اور سیاسی حالات نے امام کو کچھ موقع راہم کیا تھا کہ وہ شیعوں کی ثقافتی بنیادوں کو مضبوط کریں  تاکہ شیعوں کےلئے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔

امام علیہ السلام کے دور میں قسم قسم کے کلامی مکاتب کے ظہور اور عقلی اور فلسفی شبہات کی یلغار  نے نظریوں اور آراء کی بھرمار کردی۔ نتیجتا کئی ایک علمی فرقہ وجود میں آئے اور یوں تمام عالم اسلام کو فکری خلفشار نے گھیر لیا۔

یہ وہ علمی دور تھا جو اسلام کے مستقبل کے لئے خاصی اہمیت کا حامل تھا اور اس دور میں امامت کی ذمہ داری امام نقی علیہ السلام کے کاندھوں پر تھی۔ امام نقی علیہ السلام عباسیوں کی جانب سے سامرا میں نظر بندی کی زندگی گذارنے سے قبل مدینہ منورہ میں  رہائش پذیر تھے اور وہاں کے علمی فضا پر حاکم مسائل کے اعتبار سے مصروف عمل تھے ۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ کے مطابق امام نے اپنی  زندگی کے آخری دس سال عباسیوں کی نظر بندی میں سامرہ میں گذارے تھے۔ ( الارشاد، جلد ۲ صفحہ ۳۱۲) متوکل عباسی  امام علیہ السلام سے سخت کینہ رکھتا تھا۔ وہ امام کے ساتھ بلکہ زندانیوں والا برتاؤ  کرتا تھا۔ حتی سامرا میں امام کے قیام کے دوران امام کو قید و بند کی صعوبتوں میں بھی مبتلا کیا۔ 

امام علیہ السلام  کے سامرا  آنے سے حالات یکدم تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جب عباسیوں کی حکومت کمزور پڑنا شروع  ہوگئی تھی۔ حکومتی اداروں  پر  حاکم سیاسی اور اخلاقی گراوٹ نے سارے اسلامی معاشرے میں بدنظمی پھیلا رکھی تھی۔ سیاسی گو مگو اور فکری اور عقیدتی بحران میں اگر امام علیہ السلام کی درست منصوبہ بندی اور جانفشانی نہ ہوتی  اسلام کی عقیدتی بنیادیں بکھر جاتیں۔ توحید نبوت امامت  معاد جیسی بنیادی تعلیمات آشفتگی  کا شکار ہوجاتیں اور تشیع راہ راست سے ہٹ جاتی۔ (التوحید، صفحہ ۳۱)

سیاسی گھٹن کے اس ماحول میں شیعوں کے لئے سب سے زیادہ تلخ، اہل بیت کے پیرو کاروں میں تفرقہ تھا۔ اس دور میں شیعوں کے کئی ایک فرقہ معرض وجود میں آئے جنہوں نے اہل بیت کے چاہنے والوں کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کیا۔

امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ایسے ہی اسلام دشمن اور منحرف فرقوں میں سے اہم فرقہ غالیوں کا تھا ۔ یہ غالی شیعوں کے لئے انتہائی نقصان دہ تھے کیوں کہ  ان عقائد بے بنیاد اور من گھڑت تھے مگر یہ خود کو شیعہ کہا کرتے تھے۔  غلات  خود کو امام کا سچا پیرو  بلکہ امام کی جانب سے منصوب شدہ کہہ کر سادہ لوح لوگوں کو بہکاتے تھے اور لوگوں کو غلو کی جانب مائل کرتے تھے اور امام کے لئے مقام الوہیت کا قائل بناتے تھے۔

 

 لغت اور اصطلاح میں غلو کی تعریف

عربی زبان میں غلو افراط اور حد سے گذرنے کے معنی  میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی لئے قیمتی چیزوں کو عرب زبان ’’غالی‘‘ کہتے ہیں۔(المعجم الوسیط صفحہ ۶۹۰)۔ لغت میں غلو حد سے گذرنے اور قصد سے تجاوز کرجانے کے معنی میں ہے  جیسا کہ خدا کا فرمان ہے: اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو(سورہ نساء آیت ۱۷۱) اس آیت میں خدا وند متعال نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ہر قسم کے غلو نہی فرمادی  اور ان کے معاملہ میں حد سے گذر جانے کو منع کر دیا۔ (بحار الانوار جلد ۲۵ صفحہ۳۴۴)۔ غالیوں کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے   کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ آئمہ  الوہیت کی منزل پر فائز ہیں۔ یہ لوگ آئمہ اہل بیتؑ کو حدود بشر سے ماورا جاننے کے ساتھ ساتھ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا کی روح ان میں حلول کر گئی ہے۔ شیخ مفیدؒ ، عقائد صدوق کی شرح میں اسی بارے میں رقم طراز ہیں:

والغلاۃ من  المتظاہرین بالاسلام۔ ھم الذین نسبوا امیر المومنین و الأئمۃ من ذریتہ علیہ السلام الی الالوھیۃ و النبوۃ و صفوھم من الفضل فی الدین و الدنیا الی ما تجاوزوا فیہ الحد و خرجوا عن القصد و ھم ضلال کفار حکم فیھم امیرالمومنین بالقتل  والتحریق بالنار(تصیح العتقاد صفحہ ۱۰۹)

بعض محققین نے غالیوں کی تعریف کو اس سے عام جانا ہے۔ محمد جواد مشکور صاحب اپنی کتاب  ’’فرہنگ فرق اسلامی‘‘ میں غالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: غالی، شیعوں کا ایک فرقہ ہے  جنہوں نے شیعہ تعلیمات میں غلو کیا  اور اپنے اماموں کے بارے میں خود ساختہ عقائد کے حامل ہوگئے  ۔ انہوں نے آئمہ کو خدائی کے درجہ تک پہنچا دیا اور  بعض اس کے قائل ہوگئے کہ ان کے آئمہ اور پیشواؤں میں روح الہی اور جوہر  نورانی خدا وند حلول کر گیا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو تناسخ کے قائل ہوگئے۔( فرہنگ فرق اسلامی صفحہ ۱۵۱)

 حدیث کی کتابوں میں غالی کے لفظ کے بارے میں ملتا ہے:  غالی وہ ہے جو آئمہ کی شان میں غلو کرتا ہے اور غالیوں کے فرقہ کے عقائد سے منتسب ہے۔ یہ راوی کے عقیدہ کے فاسد ہونے کی دلیل ہے سو ایسے فرد کی بیان کردہ حدیث و روایت قابل اعتنا نہیں ہے (وصول الاخیار الی اصول الاخبار، صفحہ۱۹۳، مقیاس الہدایہ جلد ۲ صفحہ ۲۹۴،الرعایہ فی علم الدرایہ صفحہ ۲۰۹)

اصطلاح  علم کلام میں غلات یا غالیہ  ایک فرقہ کا اسم عام ہے جو رسول اللہﷺ اور آئمہ بالخصوص حضرت امیر علیہ السلام کے حق میں غلو کرتے ہیں اور ان کو خدا ٹھہراتے ہیں۔(تاریخ علم کلام و مذاہب صفحہ ۶۶)

 

غالیہ فرقہ کے عقائد

غالیہ فرقہ کے عقائد کو خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

۱۔ امام یا پیشوا کی الوہیت پر اعتقاد

۲۔ امام یا پیشوا میں  نورانی الہی جوہر کا حلول

۳۔ بداء

۴۔ تشبیہ

۵۔ رجعت

۶۔ تناسخ

۷۔ تحریف قرآن و عدم حجیت قرآن

(فرہنگ فرق اسلامی صفحہ ۱۵۲)

مندرجہ بالا عقائد کے علاوہ غلات دو دیگر مطالب کے بھی سخت معتقد رہے ہیں اور ان کے حد سے زیادہ  پابند رہے ہیں۔۱۔  امام کا مطلقا عالم غیب ہونا۔ ۲۔ بندوں کے رزق اور موت کا انتظام امام کے ہاتھ ہونا۔

اخلاقیات  اور شریعت کی پاسداری کے معاملہ میں غالیہ در حقیقت کسی بھی دین پر اعتقاد نہ رکھتے تھےبلکہ دین اور اصول دین کو اعتباری گردانتے تھےان کا اعتقاد تھا کہ دینی احکام صرف انسانوں کو قابو میں رکھنے اور ان کی دنیاوی زندگی کو منظم کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ (معرفت  الحدیث صفحہ ۶۷)

یہ لوگ دینی امور کی پابندی صرف لوگوں کے ڈر سے کرتے تھے۔ ان کے قلب دین کی تعلیمات سے منحرف تھے۔ اس کے علاوہ غالی فرقہ کے لوگ نماز روزہ جیسی عبادات کی تفسیر یہ کرتے تھے کہ یہ صرف علامتی عبادات ہیں اور ان کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے ( معرفت الحدیث صفحہ ۶۷) غالیوں کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ امام کی معرفت یا فقط محبت انسان کو تکالیف شرعی کی انجام دہی سے مبرا کر دیتی ہے۔ (اختیار معرفۃ الرجال صفحہ ۲۰۹)

غلو کے باب میں اسلام کا نقطہ نگاہ

ہوسکتا ہے کہ ہر دین  و مذہب کے پیرو کاروں کے درمیان کچھ ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو اس دین کی تعلیمات پر یقین نہ رکھتے ہوں یا اس کی بعض  تعلیمات کو بے ہودہ سمجھیں  یا اس میں مبالغہ کے مرتکب ہوں اور دین و مذہب کی کچھ پایہ کی شخصیات کے بارے میں غلو کا شکار ہوجائیں۔

قرآن کریم  میں ارشاد خداوندی ہے: و قالت الیہود عزیز بن  اللہ و قالت النصاریٰ المسیح بن اللہ ( سورہ توبہ آیت ۳۰)  ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم۔(توبہ آیت۳۱) اسی طرح سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے : یا اہل الکتاب لا تغلوا فی دینکم (نساء ۱۷۱) ان آیات کی روشنی میں قرآن دونوں گروہوں کو غلو اور شرک کو چھوڑ کر حقیقت کی جانب پلٹ آنے  کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت عزیز اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام دونوں خدا کے بندے اور نبی تھے۔

ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے غلو کا خطرہ  الہی ادیان کے پیروکاروں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور  ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ صرف اسلام کے ساتھ پیش آیا ہو۔  مسلمانوں اور بالخصوص شیعوں میں غلو کی ترویج و تبلیغ میں سود جو منافقین کا بڑا حصہ رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ  اس  خطرناک  اعتقاد کے تانے بانے رسول اللہ ﷺ کی وفات جاں گداز کے بعد ان کی رحلت سے انکار کے دعوے سے ملتے ہیں  جہاں کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کا انتقال نہیں ہوا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح واپس آئیں گے۔

کشی اپنی رجال میں  سبائیہ کے سردار عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھتے ہیں: بعض اہل سیر نے لکھا ہے کہ عبداللہ ابن سبا ایک یہودی تھا جو مسلمان ہوگیا تھا اور خود کو امام علی علیہ السلام کا پیروکار کہتا تھا۔ وہ اپنی یہودیت کے زمانے میں جس طرح یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے غلو آمیز عقائد کا حامل تھا اسلام قبول کرنے کے بعد  اس نے وہی عقائد امام علی علیہ السلام کے بارے اختیار کرلئے۔ (اختیار معرفۃ الرجال صفحہ ۱۷۴) بعض مورخین جیسے شہرستانی نے اپنی ملل و نحل میں اس نظر کی تائید کی ہے۔ ( ملل و النحل صفحہ ۱۸)۔

بعض محققین  نے یہ بھی ذکر کیا ہے  امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ادوار میں غالیوں اور غلات کو نشانات نہیں ملتے ۔ اس عرصہ میں جو ۲۱ سال پر محیط ہے  نہ تو عبداللہ ابن سبا کی کوئی داستان ملتی ہے  نہ اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ آئمہ کے حق میں غلو سے کام لے کر کسی نے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی ہو۔ (تاریخ علم کلام و مذاہب اسلامی صفحہ ۷۲)

حضرت علی علیہ السلام کے دور میں غلات کا آغاز ہوا  لیکن ان کی شہادت کے بعد ان کا رنگ کچھ پھیکا پڑ گیا ہر چند  محمد بن حنفیہ کے پیروکار غلو کی جانب مائل ہوئے تھے مگر امام باقر علیہ السلام کے زمانے تک  ان کا رشد و نمو کافی کمزور تھا۔  امام صادق علیہ السلام کے دور امامت میں غالیوں کو  رشد کرنے کا موقع ملا ۔ امام ششمؑ کے زمانے میں غیبت کبریٰ تک غالیوں نے (بعض نے حکومتی سرپرستی میں) کھل کر کام کیا اور ہر ہر امام نے اپنے دور کے حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا اور ان کے باطل عقائد پر خط بطلان کھینچا۔

امام نقی علیہ السلام کے دور کے غالی

غلو ، ایک غلط اعتقادی رجحان کے عنوان سے، اپنے شدت و ضعف کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے غیبت کبری تک اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا۔ رسول اللہ ﷺ، امام حسن ؑ ، امام حسین ؑ، امام زین العابدینؑ، امام موسیٰ کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ کے ادوار میں  یہ رجحان بہت کمزور رہا لیکن دوسرے آئمہ بالخصوص امام صادقؑ اور امام رضا کے دور میں یہ اپنے اوج پر نظر آتا ہے۔ (سیرہ آئمہ اثنی عشر صفحہ۲۱۳)۔

امام نقی علیہ السلام کا زمانہ ثقافتی سرگرمیوں اور اعتقادی و علمی  مباحث کے پھیلاؤ کے سبب مختلف کلامی فرقوں کی پیدائش کے حوالے سے  بے نظیر ہے۔  رنگ رنگ کی آراء کا ظہور ثقافتی اور سماجی  آشفتگی کا باعث بنا اور اس کے نتیجے میں مختلف فرقہ پیدا ہوئے جیسے: غلات (غالیہ)، واقفیہ، صوفیہ اور مجسمہ وغیرہ۔ امام نقی علیہ السلام  کا ان سب سے مقابلہ کرنا اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم امام کے اس کام کو امیر المومنین علیہ السلام کے خوارج سے مقابلہ کرنے کے مقام پر رکھ سکتے ہیں۔ ایسا سخت مقابلہ جس نے فتنہ و فساد کی آنکھ پھوڑ دی۔

امام نقی علیہ السلام کے دور کے بعض نمایاں غالی درج ذیل تھے۔

۱۔ علی بن حسکہ

۲۔ قاسم یقطینی

۳۔ حسن بن محمد بن بابی قمی

۴۔ محمد بن موسیٰ شریفی

۵۔ محمد بن نصیر نمیری

۶۔ فارس بن حاتم قزوینی

۷۔ ابن فرات

۸۔ احمد بن محمد سیاری

۹۔ حسین بن عبید

۱۰۔ فتح بن یزید  جرجانی (گرگانی)

۱۱۔ عباس بن صدقہ

۱۲۔ ابوالعباس طرفانی

۱۳۔ ابو عبداللہ کندی

( رجال کشی صفحہ ۱۱۳)

عصر امام نقی علیہ السلام کے بعض غالیوں کے نظریات

محمد بن نصیر نمیری

فرقہ  نمیر یا نصریہ کے سردار محمد بن نصیر نمیری کا دعویٰ تھا کہ وہ خود نبی اللہ ہے اور اس کو علی بن محمد عسکری نے مبعوث بہ رسالت کیا ہے ۔  وہ تناسخ کا قائل تھا اور اس کی نظر میں محارم کے ساتھ ازدواج کرنا جائز تھا۔ محمد بن موسیٰ بن فرات بھی اس کے حامیوں میں سے تھا۔ محمد بن نصیر کے پیروکار نصریہ کے نام سے مشہور ہوئے اور یہ فرقہ غالیوں کا مشہور ترین فرقہ تھا۔ بعد میں یہ فرقہ خود چند شاخوں میں تقسیم ہوگیا۔ ابوالعباس طبرانی اور ابو عبداللہ کندی اس دور کے مشہور غالی افراد اور ان فرقوں کے پیشوا کی حیثیت سے مشہور تھے۔ (فرق الشیعہ صفحہ ۹۳)

علی بن حسکہ

علی بن حسکہ اور کچھ دوسرے غالیوں نے لوگوں میں یہ عقیدہ پھیلانا شروع کیا تھا کہ ہر چیز کا ظاہر اور باطن ہے۔ قرآن کا بھی ظاہر اور باطن ہے اور قرآن کے ظواہر قابل اعتنا نہیں ہیں اور قرآن کی اصل اس کا باطن ہے۔ مزید برآں قرآن کے باطن کو سمجھنا عقل بشر کی توانائی سے باہر ہے ۔ اس عقیدہ کی ترویج کے بعد وہ قرآن کے باطن کے نام پر ہر ہر آیت کی من چاہی تفسیر کرکے لوگوں کو گمراہ کیا کرتے تھے۔ (فرق الشیعہ صفحہ۹۳)

فتح بن یزید جرجانی (گرگانی)

امام  علی نقیؑ کے زمانے کے منحرف العقیدہ اور غالیوں میں سے ایک فتح بن یزید  بھی تھا۔ امام علی نقی ؑ کے ساتھ ایک گفتگو کے ضمن میں اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کے عقیدہ کے مطابق امام کو کھانے پینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ خورد و خوراک امام کے مقام کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ امام علی نقی علیہ السلام نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا: اے فتح بن یزید! خدا کے بھیجے ہوئے پیمبر جو ہمارے لئے بھی نمونہ عمل ہیں وہ کھاتے پیتے تھے بازاروں میں سفر کرتے تھے۔ ہر جسم ایسا ہی ہوتا ہے سوائے خدا وند متعال کے کہ وہ جسم و جسمانیت سے پاک ہے اور جسم کو جسم بنانے والا ہے۔ (کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ  جلد ۲ صفحہ ۳۳۸)

فارس بن حاتم

امام  علی نقی علیہ السلام کے زمانے کا ایک اور  مشہور و معروف غالی  فارس بن حاتم تھا۔ ایک مدت تک وہ امامؑ کا وکیل بھی رہا مگر سر انجام امام ؑ نے اس پر لعن کی اور اس کی تکذیب فرمائی۔ فارس اور علی بن جعفر کے درمیان ہونے والے اختلاف میں امام علیہ السلام نے علی بن جعفر کو مورد تائید قرار دیا۔ فارس بن حاتم کا انحراف، بدعتیں اور گمراہ کن سرگرمیاں کچھ ایسی تھیں کہ امام علیہ السلام نے اس کے قتل کا حکم صادر کر دیا تھا اور اس کے قاتل کو جنت کی بشارت تک دے دی تھی اس بارے میں امام علیہ السلام نے لکھا: فارس میرے نام سے کاموں میں دخل اندازیاں کرتا ہے اور لوگوں کو دھوکہ دہی کے ذریعہ دین میں بدعت پیدا کرنے کی جانب مائل کرتا ہے۔ اس کو جو کوئی قتل کرے اس کا خون بہا معاف ہے۔ کوئی ہے جو اس کو قتل کرکے میرے سکون و آرام کا انتظام کرے؟ جو کوئی یہ کام کرے گا اس کی جنت کی ضمانت میں لیتا ہوں۔

امام علیہ السلام کے ایک صحابی  ’’جنید‘‘ نے امامؑ کے اس حکم  کی تعمیل کی اور اسلامی معاشرے کو اس کے شر سے ہمیشہ کے لئے نجات دی۔ (اختیار معرفۃ الرجال صفحہ ۲۰۶)

غالیوں  سے نمٹنے کے لئے امام  نقی علیہ السلام کی راہ و روش

امام نقی علیہ السلام نے بھی اپنے اجداد کی طرح اپنی پوری قوت کے ساتھ انحرافی فرقوں اور غالیوں کے مقابلے پر تھے۔  ہرچند کہ ماحول نا سازگار تھا اور ساری فضا پر شیعوں کے لئے گھٹن چھائی ہوئی تھی  جس میں شیعوں اور امام  علیہ السلام دونوں کے لئے کام کرنا انتہائی دشوار تھا مگر امام علیہ السلام نے ایسے حالات میں ہر ہر موقع سے استفادہ کیا  اور ہر ممکن حد تک منحرف فرقوں کے شر کو دور کیا اور اصل شیعہ تعلیمات کی ترویج کی۔ یہاں ہم امام نقی علیہ السلام کے چند اہم اقدامات کی جانب اشارہ کریں گے۔

 دعا و زیارت  کی زبان کا استعمال

امامت، دین اسلام کا ایسا اہم ترین رکن ہے جس کی جانب دوست و دشمن ہر دو کی توجہ ہمیشہ رہی ہے۔ امامت کے حامیوں نے ہمیشہ اس کی حفاظت  کی اور دشمنوں نے ہمیشہ امامت کے خاتمہ کی کوشش کی ہے۔ انہی دشمن گروہوں میں سے ایک غلات (غالیہ) کا گروہ بھی تھا جس نے اس رکن اسلام یعنی امامت کو اسلام سے ختم کرنے لئے   کوئی کسر  نہ چھوڑی تھی۔  ایسا لگتا ہے کہ اسلام کے ارکان میں امامت کا نا شناختہ رہ جانا اس بات کا سبب بنا کہ گمراہ فرقوں کو اس باب میں شبہہ پیدا کرنے میں آسانی رہی۔ غدیر کو ابتدا  میں ہی بھلا دینا اور اس کے بعد اسلام ناب کی تعلیمات سے روگرادنی کا نتیجہ گمراہ فرقوں کے عقائد کی ترویج کا سبب بنا۔

امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں بھی یہ گمراہ فرقہ اپنے غلو کے ذریعہ اسی بات کے در پے تھے کہ امامت کا مضبوط رکن کو شیعہ عقائد میں متزلزل کر دیں۔ امام نقیؑ نے ان غالیوں کی کارستانیوں کو ناکام کرنے  اور امام کے مقام و منزلت کی وضاحت کے لئے جو راستے اپنائے ان میں سے ایک راستہ دعا اور زیارت  کی زبان تھی۔ 

معرفت امام علیہ السلام کا ایک بنیادی سرچشمہ زیارت جامعہ کبیرہ ہے۔امام نقی علیہ السلام نے اس زیارت کو ایک خاص طریقہ سے بیان کیا ہے۔ اسی زیارت کے ایک حصہ میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کما شہد اللہ لنفسہ ۔۔۔۔۔ و اشہدان محمدا عبدہ المنتجب و رسولہ المرتضیٰ( مفاتیح الجنان صفحہ ۸۹۰) اس اقتباس سے واضح  ہے کہ امام خدا کی وحدانیت پر تاکید کرنے اور توحید کے بیان کے ہمراہ غالیوں کے اس عقیدہ پر بھی خط بطلان کھینچتے ہیں کہ خدا کا نورانی جوہر امام یا پیشوا میں حلول کر گیا ہے۔ یہاں امام علیہ السلام رسول اللہ ﷺ  اور آئمہ اطہا ر کو واضح الفاظ میں خدا کا بندہ کہتے ہیں۔

اس طرح امام نقی علیہ السلام  نے اسلامی معاشرہ کے عقائد کو نظم بخشنے کے ساتھ  اپنی زیارت جامعہ اور دوسرے کلمات و احادیث کے ذریعہ غالیوں کو تمام تر عقائد کو باطل قرار دیا  اور اس زیارت یعنی زیارت جامعہ کبیرہ کے آغاز میں ہی خدا کی وحدانیت کی شہادت اور شرک کی نفی کرکے لوگوں کو پر یہ واضح کیا کہ غالیوں کے عقائد باطل ہیں۔

تحریف قرآن کے تفکر سے مقابلہ

امام نقی علیہ السلام  نے غالیوں کے ایک اور عقیدہ یعنی قرآن میں تحریف کے خلاف بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ امام نقی کے دور میں جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل تھے ان میں احمد بن محمد سیاری پیش پیش تھا اور یہ شخص خود کو امام علیہ السلام کا دوست اور پیروکار کہاکرتا تھا اور اس طرح  سادہ لوح شیعوں کو اپنے گرد جمع کرکے ان کو گمراہ کرنے کا کام انجام دیا کرتا  تھا۔ اس کام کے لئے سیاری نے ایک کتاب میں بہت سی جعلی روایات جمع کر دی تھیں جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ  وہ قرآن جو ہمارے پاس ہے وہ تحریف شدہ ہے۔

سیاری کی کارستانیوں کو ناکام کرنے کے لئے امام نقی علیہ السلام نے ایک مفصل رسالہ ابن شعبہ حرانی کو تعلیم کیا جس میں وہ امام سے   اسی قرآن کے اصلی ہونے کو صراحت کے ساتھ نقل کرتا ہے۔ وہ لکھتاہے کہ امام علیہ السلام نے اسی متداول قرآن کو صحیح اور غلط روایات کی شناخت کے لئے معیار تام قرار دیا ہے۔ مزید برآن امام نے اسی قرآن کو وہ واحد متن قرار دیا جس سے مسلمانوں کے تمام گروہ استناد کرتے ہیں : قد اجتمعت الامۃ قاطبۃ لا اختلاف بینھم ان القرآن حق لا ریب فیہ عند جمیع اہل الفرق (تحف العقول :۳۳۸)( یعنی اس قرآن کے علاوہ کوئی اور دوسرا قرآن نہیں ہے اور یہی وہ قرآن ہے جس کے لئے خدا نے فرمایا کہ انا نحن نزلنا الذکر انا لہ لحافظون۔ (تاریخ اہل بیت صفحہ ۲۱۸، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ صفحہ ۵۱۶)

علما بیان کرتے ہیں کہ امام علیہ  السلام نے اپنے استدلال میں دسیوں ایسی آیات پیش کیں جو ایک جہت سے جبر پر اور دوسری جہت سے تفویض پر دلالت کرتی تھیں اور اپنی بات کے آخر میں امام نقی ؑ نے امام امیر المومنین ؑ کے اقوال کو گواہ کے طور پر پیش کیا اور قرآن کی حقانیت اور عدم تحریف کو ثابت کیا۔ (الاحتجاج جلد ۲ صفحہ ۲۵، بحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۲۵۵)

اس کے علاوہ بھی امام نقی علیہ السلام نے دیگر آئمہ کی طرح جگہ جگہ مسائل کے حل کے لئے قرآن کی آیتوں کا سہارا لیا  ۔عطاردی کے مطابق بھی امام علیہ السلام نے ایک اختلافی مسئلہ میں قرآن سے سند پیش کرکے تمام اہل مجلس کو اپنی  نظر قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ (مسند الامام الھادی ۲۸۔۲۹، مناقب آل ابی طالب جلد ۲ ص ۴۴۳)

اس طرح امام ؑ نے گاہے بگاہے  ایک علمی اور مستند روش کو اپناتے ہوئے غالیوں کے تحریف قرآن کے کفر آمیز عقیدہ کو باطل قرار دیا۔

غالیوں سے اجتناب کرنے کی نصیحت

احمد بن محمد بن عیسیٰ جو حقیقی شیعوں میں سے اور دین میں ہر قسم کے غلو کے سخت مخالف تھے، وہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک خط میں امام نقیؑ سے سوال کیا گیا:

’’کچھ لوگ کچھ ایسی  روایات کو آپؑ اور آپ ؑ کے اجدادؑ سے نسبت دیتے ہیں جو دل کو ناگوار گذرتی ہیں۔ لیکن صرف اس لئے کہ وہ ان احادیث کو آپ کے اجدادؑ کی جانب نسبت دیتے ہیں ہم یہ جرأت نہیں کر پاتے کہ ان کا انکار کریں۔ علی بن حسکہ اور سالم بن یقطین  خود کو آپؑ کا پیروکار اور موالی کہتے ہیں وہ   اس آیت ’’ ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر‘‘ کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اہل رکوع و سجود نہیں تھا (یعنی آیت کا حکم عام نہیں بلکہ خاص مورد کے لئے یہ آیت تھی)۔ اسی طرح  وہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ سے مراد بھی ایک خاص شخص  تھا زکوٰۃ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ درھم و دینار سے ایک مخصوص مقدار ادا کی جائے۔ یہ لوگ تمام سنتوں اور گناہوں کی اسی انداز پر توجیہہ اور تفسیر کرتے ہیں۔ اگر آپ مصلحت سمجھیں تو ہمارے لئے ان کا مسئلہ واضح کر دیں اور اپنے پیروکاروں پر احسان کرتے ہوئے  انہیں اس جنجال سے نجات دیں۔  امام علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں تحریر کیا: لیس ھذا من دیننا فاعتزلہ ( یہ ہمارا دین نہیں ہے اس کو چھوڑ دو)۔

اسی طرح کے ایک خط کی خبر ابراہیم بن شبیہ اور سہل بن زیاد نے بھی دی ہے۔ ان خطوط میں سے ایک خط کے جواب میں امام نے کافی مفصل  بیان تحریر فرمایا تھا۔  اسی ضمن میں امامؑ خط کے جواب میں محمد بن حسکہ کی مذمت بھی کی تھی اور اس  کی اہل بیت سے وابستگی کا انکار کرتے ہوئے اس  کی باتوں اور تاویلات کو باطل قرار دیا تھا اور شیعوں کو اس سے اجتناب اور دوری اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ امام علیہ السلام نے یہاں تک تحریر کیا کہ تم میں سے جو کوئی ان دونوں میں کسی پر قابو پا لے اس کو قتل کردے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ امام علیہ السلام نے محمد بن حسکہ اور قاسم بن یقطین پر لعنت کی اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا۔(اختیار معرفۃ الرجال ۲۲۴)

غالیوں کی تکذیب اور ان سے بیزاری  کا اظہار

امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم کی تکذیب اور ہتک کا حکم صادر فرمایا تھا اور علی بن جعفر اور فارس بن حاتم کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں علی بن جعفر کی حمایت کی تھی اور فارس کو رد کر دیا تھا۔ اسی طرح امام علیہ السلام نے فارس بن حاتم کے قتل کا حکم بھی صادر فرمایا تھا جس کے بعد ’’جنید ‘‘ امامؑ سے زبانی اجازت طلب کرکے ابن حاتم کو قتل کر دیا تھا۔

شیخ طوسی بیان کرتے ہیں : امام ہادی نے فرمایا: فارس میرے نام سے امور میں دخل اندازیاں کرتا ہے اور لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور انہیں دین میں بدعت کی جانب دعوت دیتا ہے۔ اس کا خون مباح ہے پس کوئی ہے جو اس کو قتل کرکے میرے سکون کا سامان کرے؟ جو کوئی اس کو قتل کرے گا اس کی جنت کی ضمانت میں لیتا ہوں۔

اس کے بعد امام کے ایک صحابی جنید نے امام کے فرمان کو جاری کیا اور فارس کو قتل کرکے اسلامی معاشرے کو اس کے شر سے نجات دی۔ ( رجال طوسی :۵۲۴)

حسین بن عبید  ایک اور بڑا غالی تھا  یہ بھی خود کو امام نقیؑ کا خاص پیروکار کہا کرتا تھا۔ احمد بن محمد بن عیسی قمی ان علمامیں سے تھے جو غلو کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے حسین بن عبید کو اس کے ساتھیوں سمیت غلو کے جرم میں قم  جلا وطن کر دیا تھا۔ (اختیار معرفۃ الرجال۲۲۶)

امام نقی ؑ نے ابن حسکہ کے بارے میں موصول ہونے والے ایک خط کے جواب میں کچھ یوں تحریر کیا: ابن حسکہ پر خدا کی لعنت ہو۔ وہ جھوٹ  بکتا ہے۔ وہ میرے دوستوں اور پیروکاروں میں سے نہیں ہے۔ اسے کیا ہوگیا ہے؟ خدا اس پر لعنت کرے۔ خدا کی قسم خدا نے محمدﷺ اور ان سے پہلے کے انبیاء کو توحید کی دعوت اور نماز، زکات، حج اور ولایت کی تبلیغ کے لئے بھیجا تھا۔ محمدﷺ  کی دعوت بھی دعوت توحید تھی۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے جانشین بھی خدا کے بندے ہیں  اور ہم اس کے ساتھ ہرگز شرک نہیں کرتے۔ ہم جب تک اس کی اطاعت کریں گے اس کے رحمت کے حقدار رہیں گےاور اگر ہم بھی اس کے فرمان سے روگردانی کرٰیں گےتو اس کے عذاب میں مبتلا ہونگے۔ ہم خدا پر کوئی حجت نہیں رکھتے  بلکہ یہ خدا ہے جس نے ہم پر اور اپنی تمام مخلوقات پر حجت قائم کی ہوئی ہے۔  جو کوئی بھی اس قسم کی( غلو آمیز) باتیں کرتا ہے میں  اس سے بیزار ہوں  اور ایسی باتوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ تم سب بھی ایسوں سے دوری اختیار کرو اور ان پر سختیاں کرو ۔ ان پر دباؤ ڈالو۔ اگر ان پر قابو پا لو تو پتھر سے ان کا سر پھاڑ دو۔ (رجال طوسی: ۵۱۹۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۸: ۵۵۴)

امام نقیؑ نے عبیدی  کے نام اپنے ایک خط میں فہری اور ابن بابای قمی سے بھی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بارے میں کچھ یوں تحریر کیا:  میں محمد بن نصیر فہری  اور حسن بن محمد بن بابای قمی سے بیزار ہوں اور تمہیں اور تمام شیعوں کو ان کے فتنہ و فساد سے ہوشیار کرتا ہوں۔ میں ان دونوں پر لعنت کرتا ہوں۔ یہ دونوں لوگوں کا مال ہمارے نام پر ہڑپ جاتے ہیں  اور سخت فتنہ گر ہیں۔ خدا وند متعال ان دونوں پر عذاب نازل کرے اور ان کو سخت فتنوں میں گرفتار کرے۔ ابن بابای یہ کہتا ہے کہ میں نے اسے نبوت کے لئے منتخب کیا ہے  اور وہ میرا دروازہ ہے  تو خدا وند اس پر لعنت کرے۔  شیطان نے اس پر مسلط ہوکر اس کو گمراہ کردیا ہے۔ اگر ہوسکے تو  پتھر سے اس کا سر کچل دو۔ اس نے مجھے سخت اذیت دی ہے ۔ خدا  اس کو دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دے۔ (رجال طوسی:۵۱۹)

صبر اور ثبات قدم کی دعوت

انحرافی فرقہ سے مقابلے کے لئے امام علیہ السلام کی ایک اور روش صبر و استقامت کی روش تھی۔ امامؑ اپنے حقیقی شیعوں اور دوستوں کو اس راہ میں صبر و ثبات کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔ آپ نے ابن سلامہ کے ایک خط کے جواب میں غالیوں کی کارستانیوں کے جواب میں اپنے شیعوں کے لئے دعا تحریر فرمائی اور انہیں غالیوں کی کارستانیوں پر صبر اور استقامت کی نصیحت کی (حیاۃ الامام الھادی ۲۷۱)

امام نقی علیہ السلام نے اپنے اجداد کی طرح ہی ہر ہر موقع پر غالیوں کی تکذیب اور تردید کی  اور اپنے دور میں پیدا ہونے والے غالیوں سے مذہب تشیع اور اپنے شیعوں کے عقائد کی حفاظت کی۔ امامؑ کی جانب سے علی الاعلان تکذیب و تردید کا ہی نتیجہ تھا کہ غالی اس دور میں انتہائی ضعیف ہوگئے  تھے اور ان میں یہ تاب و تواں نہ رہی تھی کہ اپنے بے ہودہ افکار کا پرچار کر سکیں  اور علم امامؑ اور شیعوں کی ثابت قدمی کے خلاف اپنے عقائد عَلَم کر سکیں۔

 

نتیجہ

۱۔ امام علی علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں اسلامی معاشرہ میں ایک فرقہ غلات (غالیہ) کے نام سے ظاہر ہوچکا تھا۔ یہ فرقہ اور اس کے افراد خود کو اہل بیت کا دوست کہا کرتے تھے مگر ان کی شان میں غلو کرتے تھے اور ان کو خدا کے مرتبہ پر جانتے تھے۔ ان میں سے بعض اس بات کے قائل تھے کہ خدا کا نورانی جوہر ان ہستیوں میں حلول کر گیا ہے۔

۲۔  امام علی نقی علیہ السلام کے دور کے سیاسی اور ثقافتی حالات اس بات کا سبب بنے کہ غالیوں کے گروہ آزادانہ اپنے بیہودہ عقائد کا پرچار کر سکیں لیکن امام علیہ السلام کی درست حکمت عملیوں کے سبب یہ غالی رو بہ زوال ہوگئے۔

۳۔ کسی بھی فرقہ کو کسی مذہب کے ساتھ منسوب کرنے میں بہت دقت نظری کی ضرورت ہے۔ ہر ہر مذہب کچھ  اصول و عقائد کا حامل ہوتاہے۔ مثلا مذہب تشیع کے اپنے مشخصات اور عقائد و اصول ہیں اور یہی اصول و عقائد اس بات کا سبب بنے کہ غلات اپنی تمام کوششوں کے باوجود بھی خود کو  شیعوں سے نسبت دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ہر امام نے اس اہم مسئلہ کی جانب اپنی توجہ مبذول رکھی  اور ہر مناسب موقع پر اس مسئلہ کو باوضوح بیان کیا۔ امام علی نقیؑ جو اپنے سے پہلے اماموں کے برحق جانشین تھے انہوں نے بھی مسئلہ پر خاص توجہ دی۔ امام علیہ السلام نے غالیوں کی تکذیب اور ان کے عقائد کی تردید کے ذریعہ اس امر پر تاکید کی غالیوں کا شیعوں اور اماموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۴۔ امام نقی علیہ السلام کے غالیوں سے برتاؤ کی تحقیق دو محوروں پر کی جا سکتی ہے۔ ۱۔ ہدایتی روش یعنی بحث و مباحثہ، مطالب کی توضیح کے ذریعہ حق کا اثبات اور غالیوں کی جانب سے پیدا کئے گئے شبہات کا جواب۔ ۲۔ اجتناب کا راستہ۔ غالیوں کے ساتھ بیٹھک کی ممانعت، ان کے عقائد کی تکذیب، غالیوں پر لعن اور ان کی تکفیر۔ ان دو طریقوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعوں کے لئے امن کے حالات پیدا ہوئے اور ان کے عقائد غالیوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہوئے۔


 

کتابیات

 

۱۔ قرآن کریم (ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ، قمشہ ای)

۲۔ ابراہیم، مصطفی، احمد حسن الزیات، حامد عبدالقادر ،محمد علی النجار، معجم الوسیط، الطبعہ الخامسہ، موسسہ الصادق لطباعہ و النشر (۱۴۲۶ھ)

۳۔ ابن الاثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکریم، الکامل فی التاریخ ، بیروت لبنان، دار صادر (۱۳۸۵ش)

۴۔ ابن شہر آشوب السروی مازندرانی،  مناقب اآل ابی طالب، قم، مکتبہ علامہ

۵۔ ابن صباغ مالکی، فصول المھمہ، تہران، منشورات الاعلمی

۶۔ اریلی،علی بن عیسیٰ، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، تحقیق: سید ہاشم رسولی، تبریز

۷۔ الامینی، یحییٰ شریف، فرہنگ نامہ فرقہ ہای اسلامی، چاپ اول تہران (۱۳۷۸)

۸۔ انیس ابراہیم، المعجم الوسیط، تہران انتشارات ناصر خسرو (آفسٹ)

۹۔ بہودی، محمد باقر، معرفۃ الحدیث، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران (۱۳۶۲ش)

۱۰۔ جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، چاپ دہم، انصاریان، قم (۱۳۸۶ش)

۱۱۔ حر عاملی، شیخ محمد بن حسن،  وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ،  الطبعہ الرابعہ، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، (۱۳۹۱ش)

۱۲۔ حسنی، ہاشم معروف، سیرہ الائمہ الاثنی عشر،  بیروت، دارلقلم، الطبعہ الثانیہ (۱۴۱۱ھ)

۱۳۔ حسینی جلالی، محمد رضا، تاریخ اہل البیت، موسسہ آل بیت، قم (۱۴۱۰ھ)

۱۴۔ خطیب بغدادی، ابو احمد بن علی،  تاریخ بغداد، بیروت دارالکتاب العربی

۱۵۔ شریف قریشی، باقر، حیاۃ الامام الہادی،  بیروت دارالاضواء (۱۴۰۸ھ)

۱۶۔ شہرستانی، محمد بن عبدالکریم احمد، الملل و النحل، ترجمہ مصطفیٰ خالقدادہاشمی، تہران ۱۳۶۱)

۱۷۔ شہید ثانی، زین الدین بن علی بن احمد، الرعایۃ فی علم الدرایہ، تحقیق: محمد علی بقال، کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی ، قم (۱۴۱۳ھ)

۱۸۔صدوق، شیخ محمد بن علی بن الحسین ابن بابویہ،  التوحید، مکتب الصدوق، تہران(۱۳۱۸)

۱۹۔ طبرسی، الاحتجاج، مطبعہ النعمان نجف (۱۳۸۴)

۲۰۔ طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، دانشگاہ مشہد، مشہد (۱۳۴۸)

۲۱۔ عاملی، حسین بن عبدالصمد،  وصول الاخیار الی اصول الاخبار،  تحقیق عبداللطیف کوہ کمری، قم(۱۴۰۱)

۲۲۔ عطاردی، عزیز اللہ،  مسند الامام الھادی، آستان قدس رضوی، مشہد

۲۳۔ قمی، شیخ عباس،  کلیات مفاتیح الجنان، چاپ یازدہم، آئین دانش، قم (۱۳۸۷)

۲۴۔کشی، محمد بن عمر،  اختیار معرفۃ الرجال، تعلیقہ میر دامان۔رجالی، موسسہ آل البیت، قم (۱۴۰۴)۔

۲۵۔ کلینی، محمد بن یعقوب،  الکافی، تحقیق: علی اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیہ، تہران (۱۳۸۸ھ)

۲۶۔ مامقانی، عبداللہ بن محمد حسن، مقیاس الھدایہ، تحقیق محمد رضا مامقانی، چاپ اول، آل البیت، قم ۱۴۱۱)

۲۷۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، موسسہ الوفاء، (۱۴۰۳)

۲۸۔ مسعودی، اثبات الوصیہ،  منشورات رضی، قم 

۲۹۔ مشکور، محمد جوار،  تاریخ  شیعہ و فرقہ ہای اسلامی تا قرن چہارم،  چاپ چہارم، انتشارات اشراقی، تہران(۱۳۶۸ش)

۳۰۔ مشکور، محمد جواد،  فرہنگ فرق اسلامی،  چاپ پنجم، بنیاد پژوہش ہای اسلامی، مشہد (۱۳۸۶)

۳۱۔ مفید، محمد بن محمد بن  نعمان، تصحیح الاعتقاد بصواب الاعتقاد او شرح عقائد الصدوق، تعلیق سید ھبۃ اللہ  شہرستانی، منشورات الرضی، قم (۱۳۶۳ش)۔

۳۲۔ مفید، محمد بن محمد بن النعمان،  الارشاد فی معرفۃ  حجج اللہ علی العباد، بصیرتی، قم (۱۴۱۳ھ)

۳۳۔ ولوی، علی بن محمد،  تاریخ علم کلام و مذاہب اسلامی، انتشارات بعثت، تہران(۱۳۶۷)

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی