کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

بیدار شو (مثنوی)

Sunday, 17 February 2019، 12:48 PM

بیدار شو.......

ازقلم صائب جعفری

 

بھلا کہاں تک یہ خواب غفلت بھلا کہاں تک بلا کی نفرت 
زمانے کی کروٹوں نے انساں سے چھین لی آبر و  و عظمت 
 
اب آنکھیں کھولو یہ آمریت نہیں فقط دشمنِ مسلماں 
تباہ کاری ہے اس کا مقصد، ہدف ہے اس کا ہر ایک انساں 
 
زمین کا ہو کوئی بھی خطہ نہیں ہے محفوظ آج شر سے 
عجب ہے عالم کہ آج انساں جو ہنس رہا ہے تو وہ بھی ڈر سے 
 
لہو، رگِ تاک سے بجائے، شراب رسنے لگا ہے دیکھو 
سرودِ بلبل بجائے نغمہ ، صدائے نوحہ ، ہوا ہے دیکھو 
 
تمام عالم کہر زدہ ہے، فضا پہ بارود کی گھٹا ہے 
زمیں کا سینہ تپاں تپاں ہے سمندر آتش اگل رہا ہے 
 
جہانِ زر میں گنوا چکی ہے اب آدمیت ہر ایک ارزش 
گھسیٹ لی مفلسی نے چادر اتار لی ہے تنوں سے پوشش 
 
کبھی یہ سوچا کتاب بچوں سے چھیننا  کیا یہ مرحلہ ہے 
قلم کی جا نوجواں کے ہاتھوں میں دے دیا کس نے اسلحہ ہے 
 
زمیں پہ تخریب میں ہے مصروف کون دشمن کبھی یہ سوچا 
جہاں کی تعمیر پر لگادی ہے کس نے قدغن کبھی یہ سوچا 
 
یہ داعش القاعدہ وہابی، یہ ناصبی غالیوں کے لشکر
سبھی کے امریکہ اور برطانیہ یہودی ہوئے ہیں لیڈر
 
یہودیت اصلِ بر بریت، یہودیت اصلِ قتل و غارت 
ہے قلبِ انسانیت میں خنجر، یہودیت دشمنِ شرافت 
 
سروں کو انسانیت کے پیروں سے اپنے ہر دم کچل رہے ہیں 
بنے ہیں گلچیں چمن میں آکر، کلی کلی کو مسل رہے ہیں 
 
سعودیوں سے ملاپ کرکے، شعورِ وحدت ہلاک کرکے 
ہمیشہ ان کو خوشی ملی ہے غلافِ کعبہ کو چاک کر کے 
 
سروں پہ بچوں کے مدرسوں کی چھتوں کو ڈھاتے ہیں یہ ستمگر 
اجاڑ کر بستیوں کو شہرِ خموشاں کر دیتے ہیں سراسر 
 
سسکتے بچے، سہاگ اجڑے، تڑپتی بہنیں، اداس بھائی 
جوان لتھڑے ہیں خاک و خوں میں لٹی ہے ماں باپ کی کمائی 
 
کہیں پہ ہیں چھیتڑے بدن کیے، کہیں بدن چھیتڑے کو ترسے 
کہیں لہو کا ہے قحط جاری کہیں پہ باران خوں کی برسے 
کہیں پہ زکزاکی خون میں تر ہوا پئے عظمتِ بشر ہے 
 
کہیں پہ سولی کی زیب میثم کی مثل باقر سا با اثر ہے 
 
یہ عصرِ حاضر کی کربلا ہے خیامِ امن و اماں جلے ہیں 
مگر اسی راکھ میں نہاں انقلابِ عالم کے سلسلے ہیں 
 
وہ انقلابات جن سے لرزاں فرنگیوں کا رواں رواں ہے 
وہ انقلابات جن کی تہہ میں عروجِ انسانیت نہاں ہے 
 
وہ انقلابات  جن سے ظلم و ستم کی ہستی خزاں رسیدہ 
وہ انقلابات جن سے علم و عمل کے گلشن بہار دیدہ 
 
وہ انقلابات جو شہیدوں کے خون کی آبرو رہیں گے 
وہ انقلابات  جن سے دشت و جبل بہشتِ بریں بنیں گے 
 
بتا رہی ہے ہوائے دوراں نصیب کھلنے کو ہے بشر کا 
گذر گئیں ہجر کی شبیں ہے زمانہ اب وصل کی سحر کا 
 
افق سے اٹھے گا پردہِ شب اجالے ظلمت کو کاٹ دیں گے 
شعاعِ مہرِ وفا کے جگنو، زمیں کے گلشن کو پاٹ دیں گے 
 
اٹھو، شہیدوں کی خاکِ تربت بھی طالب رزم  بن گئی ہے
بڑھو، کہ تقدیم کو تمہاری فرشتوں کی صف سجی ہوئی ہے 
 
جہاں سے باطل کے نام کو اب مٹا دو با قوتِ الٰہی 
ہر اک برائی کی جڑ زمیں سے اکھاڑ پھینکو بفیضِ باری 
 
ضعیف بن کر رہے تو دنیا جہاں سے تم کو نکال دے گی 
ہوس کی زنجیر میں جکڑ کر عبث بکھیڑوں میں ڈال دے گی 
 
بقولِ اقبال گر ہو تہران عالمِ شرق کا جنیوا 
یقیناً اس کرہِ زمیں پر شرف بلند آدمی کا ہوگا 
 
ضرورت اس امر کی ہے صائب کہ رہبری کو بنا لیں رہبر 
جو نائبِ حجتِ خدا ہے اسی کے قدموں پہ رکھ دیں اب سر

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی