کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

مظہر مقاومت (قصیدہ)

Thursday, 21 May 2020، 10:44 PM

میانِ آدم و ابلیس جو ازل سے چھڑا

وہ معرکہ ہے ابھی تک زمیں پر برپا

ہر ایک دور میں حق والے جان دیتے رہے

ہر ایک دور میں حق خوں سے سرخرو ٹھہرا

ڈٹے رہے سر میدانِ حق نبی لیکن

یہ جنگ پہنچی سرِ کربلا تو راز کھلا

نشانِ ہمت و صبر و رضا ہے نام حسین

مقاومت کا ہے مظہر زمینِ کرب و بلا

زمینِ کرب و بلا ہے، زمین عالم کی

ہر ایک روز ہے مانند روزِ عاشورا

اصیل بہر وفا ہے فرات کا ساحل 

اسی کا پرتو ہے عالم میں کوبہ کو پھیلا

یزیدیت کے مقابل حسین ہی ہونگے

جہاں بھی باطل و حق دوبدو ہوں صف آراء

مقاومت کے انہی مورچوں میں شامل ہے

جہانِ خاکی کا یہ خطہِ ستم دیدہ

مطلع ثانی

یہ خاک و خون کا سمندر یہ آگ کا دریا

ہے نام اس کا فلسطین ہے یہ ارضِ خدا

یہ وحیِ خالق یزداں کا تھی کبھی مرکز

یہ سلطنت کا سلیماں کی تھی کبھی پایہ

تھا اس کا کل تو بہیت معتبر حسین مگر

ہے آج اس کا فقط ڈھیر ایک لاشوں کا

صدائیں توپوں کی شہنائی کا بدل ٹھہریں

ہیں قہقہے یہاں بچوں کے گلیوں کی صدا

حنا کی جا ہے ہتھیلی ز خونِ دل رنگیں

بجائے صندل و افشاں لہو ہے شوہر کا

کہیں ہے باپ کے کاندھوں پہ لاش بیٹے کی

کہیں سڑک پہ کسی ماں کا دل تڑپتا ہوا

پئے دفاع تو بس ان کے پاس پتھر ہیں

جواب آتشیں ہتھیار، خاک کا ڈھیلا

سفید ہاتھی نے صیہونیت پہ ہو کے سوار

اجاڑ ڈالا ریاضِ جناں کا یہ خطہ

دَہائیوں سے جو یہ دے رہے ہیں خوں کا خراج

کوئی بتائے تو کس بات کا ہے یہ بدلا

قصور ان کا فقط یہ ہے ، یہ مسلماں ہیں

یہودیت کے لئے ان کا دین ہے خطرہ

مگر یہود و نصاریٰ سے کیا شکایت ہو

کہ ان کو کونسا انسانیت کی ہے پروا

مگر ہے شکوہ مسلماں حکومتوں سے ضرور

برائے حقِ فلسطیں ہیں کیوں وہ بے پروا

پئے برادرِ مومن نہیں ہے دل میں تڑپ

دکھائیں گے یہ محمد کو کیسے منہ اپنا

ہوئی ہے امن و امان و سکوں سے خالی زمیں

بتانِ ظلم کا ہر سو جہاں میں ہے غلبہ

یمن ہو شام ہو بحرین، قدس، پاکستاں

زمینِ ہند میں کشمیر ہو یا افریقہ

ہے عاشقانِ رسول خدا کا خوں ارزاں

خدایا آج ہے بے آس ملتِ بیضا

ہر ایک ٹوٹا ہوا دل دعا یہ کرتا ہے

سیاہ رات کٹے ابھرے نور کا تڑکا

پکارتے ہیں سبھی یہ زبانِ حال کے ساتھ

خدائے پاک عطا کر نجات کا رستہ

ہے صلح و آشتی کا ایک راستہ اے قدیر

اٹھا دے پردئے غیبت دکھا دے صبحِ وفا

یہی ہے صائب خستہ کے قلب کا ایماں

نجاتِ آدم خاکی ہیں ابنِ شاہِ ہدی

ہے ظلم و جور سے پر کل جہان میرے خدا

برائے امن و اماں ہو ظہور حجت کا

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی