غزل
بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
غزل
بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی
شعری نشست میں پڑھی گئی غزل
ـــــــــــــــــــ
صائب جعفری
ــــــــــــــــــــ
کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے
مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے
ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا
نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا
...
مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے
پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا
.....
پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر
کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا
کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے
زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے
ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے
دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے