اٹھا نقاب لوح ازل کا غدیر میں
Sunday, 17 July 2022، 05:05 PM
اٹھا نقاب لوح ازل کا غدیر میں
مقصود کائنات بر آیا غدیر میں
دعوت سے فتح مکہ تلک جو ادھورا تھا
کارِ دین حق ہوا پورا غدیر میں
مل کر وفا کے بحر سے پرجوش ہو گیا
عرفان کردگار کا دریا غدیر میں
ایمان و اگہی پہ وفورِ بہار سے
اترا ہوا ہے شیخ کا چہرہ غدیر میں
دین خدا سے ہوگئے مایوس سب شریر
دوش نبی پہ آئے جو.مولا غدیر میں
کنکر نے بدشعار کا قصہ کیا تمام
نکلا منافقت کا جنازہ غدیر میں
بلغ کا حکم ملتے ہی حق کے رسول نے
من کنت کا سنایا قصیدہ غدیر میں
رب کی رضا کی پائی سند مومنین نے
کامل ہوا ہے آکے عقیدہ غدیر میں
بدعت اگر ہے پوچھئے پھر شیخ جی سے کیوں؟
مولا علی کا پڑھتے تھے کلمہ غدیر میں
اب لذت سجود مودت نہ.پوچھیے
جلوہ نما ہے عشق کا کعبہ غدیر میں
حکم خدا سے کردیا احمد نے آشکار
دریائے معرفت کا کنارا غدیر میں
محسن ولائے مہر امامت کے ذیل میں
اسلام کو.ملا ہے سہارا غدیر میں
غدیر ۲۰۰۶
کراچی پاکستان