ہیں ستون عرش رمز لوح و کرسی فاطمہ(منقبت)
ہیں ستون عرش، رمزِ لوح و کرسی فاطمہ
تہہ بہ تہہ ظلمات میں نورِ الہی فاطمہ
کر کے سرور کو طلب اللہ نے اسریٰ کی شب
مثل قرآن قلبِ احمد پر اتاری فاطمہ
قدر و کوثر سے عیاں ہے فاطمہ طینت تری
آیہ تطہیر ہے غماز تیری فاطمہ
کب ہوئی دختر کوئی امِ ابیہا دہر میں
یہ فضیلت آپ کی ہے اختصاصی فاطمہ
منزلِ تنزیل قرآں جائے تسلیمِ نبی
قدسیوں کی خلد ہے چوکھٹ تمہاری فاطمہ
کیا حقائق ہونگے پوشیدہ ترے سینے میں جب
دھر کو قرآں سکھائے تیری باندی فاطمہ
پنجتن زیرِ کساء آئے تو خود آئی سمٹ
تیری چادر میں خدا کی سب خدائی فاطمہ
کارزارِ شام بے تیغ و سناں ہوجائے سر
وہ ادائے رزم زینب کو سکھا دی فاطمہ
ہے جو " ما ینطق" کی آیت حق تو پھر حق یہ بھی ہے
ہے خدا راضی اسی سے جس سے راضی فاطمہ
اک کنارہ سلطنت کا آپ کی خلدِ بریں
ہے فدک کا باغ کیا اک دانہ رائی فاطمہ
مل گیا دہلیز پر تیری سخاوت کو قرار
پھر رہی تھی وہ جہاں میں ماری ماری فاطمہ
کیا پڑے گی ماند دینِ مصطفیٰ کی روشنی
جب ہیں اس کا حال و استقبال و ماضی فاطمہ
قاضیہ ہیں حشر کے دربار کی بنتِ نبی
بچ رہے گا تا کجا اب تیرا باغی فاطمہ
قول کی اپنے عمل سے آپ کرتا ہے نفی
نام لیتا ہے ترا جب بے نمازی فاطمہ
کیجئے اب اپنے مہدی کو عطا اذنِ ظہور
تا ملے سارے جھمیلوں سے خلاصی فاطمہ
راگ سے گانے لگے ہیں منقبت فنکار، یاں
یہ بتا دیجے کہاں جائیں عروضی فاطمہ
آپ ہی کی بھیک سے بھر کر یہ کشکولِ سخن
آپ کی ہی منقبت صائب نے لکھی فاطمہ
۱۸ مارچ ۲۰۱۷، ۱۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۸