ہر نفس بس یہ کیا ہے باصفا سجاد نے(منقبت)
منقبت
ہر نفس بس یہ کیا ہے با صفا سجاد نے
نقش عبد اللہ کو روشن کیا سجاد نے
بے نواوں کو عطا کرکے دعاوں کی نوا
ہم سخن بندوں کو خالق سے کیا سجاد نے
کفر کی ظلمت کو چھانٹا دی کرن ایمان کی
آندھیوں کے دوش پر رکھ کر دیا سجاد نے
بن گیا گرداب خود ساحل سفینے کے لئے
جب کمر میں ڈالا لنگر نا خدا سجاد نے
آبِ شمشیر زباں سے تخت تختہ ہو گیا
لہجہِ حیدر میں یوں خطبہ دیا سجاد نے
کربلا سے شام تک زنجیر کو کر کے قلم
خاک کے ذروں پہ لکھ دی کربلا سجاد نے
سرخئِ خونِ شہِ مظلوم کو بخشا دوام
آدمِ سادات ابن قل کفیٰ سجاد نے
سجدہِ معبود کے ہمرہ مصلّے کو کیا
حضرتِ شبیر کا فرشِ عزا سجاد نے
حضرتِ ایوب حیرت میں ہیں کس طرح دیا
معنئِ صبر و رضا کو ارتقاء سجاد نے
آپ اپنے ہی سے گھنیانے لگی روحِ یزید
جب دکھایا اس کو حق کا آئینہ سجاد نے
جی اٹھا اسلام گورستانِ شامِ شرک میں
قم باذنی کی لگائی جب صدا سجاد نے
کس نے دی اسلام کو انمٹ حیاتِ جاوداں
صاف ظاہر ہے کہ روحِ کبریا سجاد نے
اللہ اللہ کیا سپاہی تھا بنا تلوار ہی
چاک کردی بادشاہت کی ردا سجاد نے
دینِ حق کے ساتھ اٹھا رکھی ہے اپنے دوش پر
بے کسانِ شہر احمد کی غذا سجاد نے
خود ہی اپنی منقبت لکھوا گئے وہ آپ سے
یوں بھرم رکھا ہے صائب آپ کا سجاد نے
۱۷ فرروری ۲۰۱۷ قم المقدسہ