کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

سجدہ خالق یزداں کے ہوں سب راز عیاں

دل کو کرلیجئے گر حضرت مہدی کا مکاں

ہم کو معلوم نہیں گھر کا پتہ جانِ بہار

آپ آجائیے خود کیجئے ہم پر احساں


وقت بتلائے گا دعؤوں کی حقیقت کیونکہ

ہم زبانی تو کیا کرتے ہیں سب کچھ قرباں


مال و اولاد طلب کرنے سے فرصت جو ملے

باندھئے مہدئِ دوراں سے کوئی تو پیماں


افقِ حق پہ نظر رکھ صدفِ قلبِ حزیں

بحرِ ایماں پہ برسنے کو ہے آبِ نیساں


مطلع ثانی

خواہش نفس پہ اب پھیر چھری بن انساں

ان سرابوں سے نکل اور حقیقت پہچاں


پیشہ ور مدح سراؤں سے گلوکاروں سے

وقت آ پہنچا ہے دامن کو چھڑا لے ناداں


منقبت گانا ہوئی گیت بنے ہیں نوحے

سستی شہرت کے لئے قتل ہوا ہے ایماں


چند سکوں کے لئے تھوڑی سی ہا ہو کے لئے

یہ بدل دیتے ہیں توحید کے ثابت ارکاں


شرک کرجاتے ہیں پانے کے لئے نام و نمود

رب کو مجبور بناتے ہیں علی کو رحماں


العجل کہتا ہے تو بار نہ کر کاندھوں پہ سر

خوں طلب کرتا ہے سیرابی کو پھر سے بستاں


تو اگر واقعی شیدا ہے بنِ زہرا کا

نامِ مہدی سے بپا دہر میں کردے طوفاں


صائب خستہ جگر کی یہی اک خواہش ہے

ان کے زانو پہ ہو سر، خون میں چہرہ غلطاں


صائب جعفری

۱۵ شعبان ۱۴۴۰

۲۰ اپریل ۲۰۱۹

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی