جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر (منقبت)
جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر
خیال جانے لگا خودبخود بسوئے امیر
خدا کا شکر ہے باقی ہوں اپنی فطرت پر
کہ پاک طینتِ آدم ہے جستجوئے امیر
نکال لائی ہے دنیائے دوں کی پستی ہے
فرازِ دار تلک ایک آرزوئے امیر
نہیں طبیعتیں قابل تو ہے قصور اپنا
وگرنہ عام ہے فیضانِ آبجوئے امیر
ہزار جان سے ہے طالبِ مسیحائی
کمالِ حضرتِ عیسیٰ بھی روبروئے امیر
خدا کے حکم سے دستِ نبی پہ جلوہ نما
غدیرِ خم کا ہے پیمانہ اور سبوئے امیر
نثار قدسی قداست پہ آج ہو جائیں
سبوچہ دل کابھرے اس طرح کدوئے امیر
غدیر خم ہو، نجف ہو، یا بیتِ ربِّ عُلا
نگاہِ عشق نے جانا ہے سب کو کوئے امیر
اے وائے سارے غرور و متاع و آل کے ساتھ
ہے زیرِ دامِ عذابِ خدا عدوئے امیر
کوئی تو راز ہے مخلوقِ بے نہایت میں
خدا کا چہرہ ہوا صرف ایک روئے امیر
ادب سے گردِ لحد ہوگئی وہ محوِ طواف
فرات، پا گئی عباس میں جو بوئے امیر
اسی لئے ہو کمر بستہ ان کی طاعت پر
کہ میں نے پائی ہے سید علی میں خوئے امیر
علی کے عشق کا دعویٰ کجا فجور کجا
ملا نہ خاک میں صائب یوں آبروئے امیر
۱۴ ذی الحجہ ۱۴۳۸، ۵ ستمبر ۲۰۱۷ قم المقدسہ