کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


جوبن پہ ہے جہان میں آیا شباب حق

بطحا سے وہ طلوع ہوا آفتاب حق

بن کر جوابِ طعنہِ ابتر بہ کرُّ و فر

آغوش میں خدیجہ کی ہے انتخابِ حق

تبلیغِ دین و شرعِ خدا وند کے لئے

اترا بشکلِ بنتِ پیمبر نصابِ حق

معدوم ہوگئی تپشِ کفر اور نفاق

ایمان کے افق پہ وہ چھایا سحابِ حق

پہچان عرش پر ہوئی ان کی بتول سے

زیر کساء جو جمع  ہوئے ماہتابِ حق

توصیف کیا بیان ہو اس کی جو لا کلام

آئینہ جمالِ خدا ہے نقابِ حق

صبحِ ازل فقط یہ کہا جبرئیل نے

نورِ بتولِ پاک ہے نورِ حجابِ حق

اس کی عبادتوں کی رقم کیا ہو کیفیت

جس کی ہر ایک سانس رہی انتسابِ حق

گو ہے ورائے عقل مگر حق تو ہے یہی

حق مرتضیٰ کی ذات ہے زہرا خطاب حق

بن کر قصیدہ ام ابیہا کی شان میں

قلبِ رسول پاک پہ اتری کتاب حق

کوثر مثال لا نہ سکے بدوِ عرب

اے معترض جو بن پڑے تو لا جواب حق

اک راز یہ بھی قبلِ تلاوت وضو کا ہے

ذکرِ بتول سے ہے مزیّن کتاب حق

میلاد ہے خمینی کا زہرا کے ساتھ ساتھ

اس اتفاق میں ہے نہاں کچھ تو راز حق

ذاتِ بتول بانی ہے جس انقلاب کی

برپا کیا خمینی نے وہ انقلابِ حق

دیتا ہے دشتِ کرب و بلا آج بھی صدا

ان کے لہو کی آب سے قائم ہے آبِ حق

کیونکر نہ چھانتا پھرے وہ در بدر کی خاک

جو معتقد نہیں ہے کہ زہرا ہیں بابِ حق

چہرے پہ ہو ملی ہوئی خاکِ درِ بتول

اے کاش ایسے جاوں میں پیشِ جنابِ حق

صائب اٹھا لے جام کہ ہے وقتِ مے کشی

برسا رہا ہے چرخِ تخیئل شرابِ حق

۱۸ جمادی الثانی ۱۴۳۸، ۱۷ مارچ ۲۰۱۷ قم المقدسہ ایران

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی