کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


صولتِ دینِ خدا ہے دبدبہ عباس کا

ماوراء ادراک سے ہے مرتبہ عباس کا

جلوہِ نورِ دعائے بنتِ احمد ہے وجود

مصحفِ تہذیبِ حیدر باوفا عباس کا

انعکاسِ وصف حیدر کے لئے معبود نے

روبرو حیدر کے رکھا آئینہ عباس کا

ہے صراطِ کبریا شیرِ خدا کا راستہ

اور صراطِ مرتضیٰ ہے راستہ عباس کا

آنکھ کھولی، دم دیا، شبیر کی آغوش میں

یوں سفر سائے میں عصمت کے رہا عباس کا

مرتضیٰ حسنین اور سجاد و باقر کے طفیل

مرتبط ہے نورِ حق سے رابطہ عباس کا

راہِ عرفانِ امامت تک رسائی کے لئے

پہلے طے کرنا پڑے گا مرحلہ عباس کا

جو شرابِ معرفت بھر دے سبوئے قلب میں

عشق کی وادی میں ہے وہ مے کدہ عباس کا

جگمگا اٹھا وفاکی روشنی سے تن بدن

آ گیا جونہی لبوں پر تذکرہ عباس کا

یوں شجاعت کی لکھی ہے کبریا نے منقبت

ہے ردیف مرتضیٰ میں قافیہ عباس کا

آسرا اسلام کو ہے حضرتِ شبیر کا

حضرت شبیر کو ہے آسرا عباس کا

کر رہا ہے دور باطل فکر کے ابہام کو

اس حدیث کربلا سے حاشیہ عباس کا

مشک کاندھے پر ترائی زیرِ پا اور ہونٹ خشک

دیکھئے تشنہ لبی میں حوصلہ عباس کا

اس کو کہتے ہیں وفا داری کہ حکمِ شاہ پر

ہوگیا قربان ارمانِ وغا عباس کا

کر رہی ہے آج احساسِ ندامت میں طواف

پیاس کی ماری ہوئی یہ علقمہ عباس کا

گھن گھرج حیدر کے لہجے کی سمیٹے آج بھی

چیرتاہے قلبِ باطل ہمہمہ عبا س کا

پیاس کے صحرا کی  نبضوں سے نچوڑا آب کو

مشک نے، بھرنے کا پاکر، عِندیہ عباس کا

فی سمومِِ لا کریمِِ قصہِ شمر و یزید

سابقون السابقوں ہے واقعہ عباس کا

خطِ عزمِ مرتضیٰ اور خطِ عزمِ شاہ دیں

ان خطوں کے درمیاں ہے راویہ عباس کا

حجت معبود کی طاعت ہے کیا، کُھل جائے گا

قلب انساں ہوگیا گر آشنا عباس کا

اب خدا جانے کہاں تک ہوگی ان کی سلطنت

نقطہِ با نے ہے کھینچا دائرہ عباس کا

چھوڑ کر تشکیک دیکھا قلب نے تو یہ کُھلا

نام، دریا کی جبیں پر، ہے لکھا عباس کا

چشمِ بینا کو شناسائے بصیرت کیجئے

معرفت کی رِحل پر مصحف ہے وا عباس کا

مطلع دل پر اگا کر آفتابِ معرفت

لے گیا معبود تک اک ردِّ پا عباس کا

وہ دفاعِ حق کی خاطر ہوگیا سینہ سپر

جس کے دل میں گونج اٹھا زمزمہ عباس کا

زینب و شبیر کی نصرت کی خاطر آج تک

قلب کو گرما رہا ہے ولولہ عباس کا

گر تلاشِ حق ہے تو پھر خانقاہیں چھوڑ کر

اے سلامی اب توسُّل آزما عباس کا

طفل میں کر جائیں گے جوہر شجاعت کے نفوذ

لوریاں ہوں گر ترانہ سورما عباس کا

موجہِ بے موج ہوجائے گا گردابِ الم

کشتیِ دل پر لگا لیجے لواء عباس کا

نام پر باب الحوائج کے جلائے ہیں چراغ

اے ہواوں دیکھنا اب فیصلہ عباس کا

فیصلہ منزل کا میر کارواں کو سونپ کر

جا رہا ہوں جائے جس جا، قافلہ عباس کا

صائبِ خستہ جگر بہرِ قیامِ عدل و حق

حجت دوراں کو دیجے واسطہ عباس کا

۲۷ اپریل ۲۰۱۷ قم المقدس

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی