عرفان رب کے گل کی مہک احساں ہے امام صادق کا(منقبت)
عرفان رب کے گل کی مہک احساں ہے امامِ صادق کا
قلب عشاقِ نبی کی دھڑک، احساں ہے امامِ صادق کا
جہل و شک کے اندھیاروں میں، الحاد و کفر کی آندھی میں
یہ آتشِ علم حق کی لپک، احساں ہے امامِ صادق کا
اسلام کی گیتی پر تشریک کے بادل کی برسات کے بعد
ایماں کے افق پر پھیلی دھنک، احساں ہے امامِ صادق کا
بغداد و مدینہ کی عظمت، لاریب یہ فضل و کمالِ نجف
اور قم کے دسترخواں کا نمک، احساں ہے امامِ صادق کا
اصلِ اسلام کو عام کیا، تنظیمِ دیں کو کام کیا
یہ دین و شریعت سب بے شک، احساں ہے امامِ صادق کا
تکفیر و غلو کی سرکوبی کو شام و عراق کے میداں میں
فوجِ حق کے قدموں کی دھمک، احساں ہے امامِ صادق کا
بولائے بولائے پھرتے ہیں اب جو سعودی، صیہونی
کفار کے سینوں میں یہ کسک، احساں ہے امامِ صادق کا
داد و تحسیں پر سینہ پھلا کر یونہی کچھ مغرور نہ ہو
اے فکرِ صائب تیری دمک، احساں ہے امامِ صادق کا
۷ دسمبر ۲۰۱۷ ، قم المقدس