شمیم ارم گنگنانے لگی(منقبت)
شمیمِ ارم گنگانے لگی
علی کے قصیدےسنانے لگی
برآتی جو دیکھی مراد وجود
جدارِ حرم مسکرانے لگی
زمیں پر ہوا سجدہ ریز آسماں
زمیں فخر سے سر اٹھانے لگی
نیا در بنا کر جدارِ حرم
حقیقت کے پردے اٹھانے لگی
صراحئِ وحدت بصد التفات
شرابِ مودت لنڈھانے لگی
جو فطرت نے چومے علی کے قدم
تو توحید کے نغمے گانے لگی
علی کی محبت میں ڈوبی ہوا
دیئے گیتی بھر میں جلانے لگی
زبان نبی دردہان علی
لودریائے عرفاں بہانے لگی
امامت نبوت کی آغوش میں
کلام الہی سنانے لگی
یہ شب بھر عبادت یہ دن بھر وغا
طریقِ مجاہد سکھانے لگی
تیری نیند وجہ خدائے قدیر
نگاہِ مشیت کو بھانے لگی
شبِ اسراء آوازِ حق برملا
رموزِ خدائی سکھانے لگی
فرشتے بچھانے لگے اپنے پر
جو تیغ علی سنسانے لگی
جو قرآن کھولا تو ایک ایک سطر
ولایت کی قیمت بتانے لگی
۔۔۔۔ق۔۔۔۔
پئے منقبت جب زمینِ سخن
سخنور کا زور آزمانے لگی
تو شاعر نے کاغذ پہ لکھا علی
زباں خود قصیدہ لکھانے لگی
انہیں روبرو پا کے چشمِ وفا
عقیدت کے موتی گرانے لگی
حجاب اٹھ گئے اور علی کی ولا
رگ و پے میں صائب سمانے لگی
۱۱ رجب ۱۴۴۰ ، ۱۸ مارچ ۲۰۱۹