ہوا ہے وقت نزول زبور عصمت کا(منقبت)
ہوا ہے وقت نزولِ زبورِ عصمت کا
صد افتخارِ حرا گھر بنا امامت کا
برائے آبروئے سجدہِ نمازِ عشق
کھلا ہے باب نیا کعبہِ موّدت کا
تصورات میں ابھرے جو نقش ہائے وفا
طواف دل نےکیا کعبہِ مودت کا
لطیف جذبہِ الفت کا لازوال کیا
مقام دل کو بنا کر تری اقامت کا
ریاضِ مشہدِ ملکِ وفا پہ شیفتہ ہے
ثبوت ہے یہ مرے قلب کی طہارت کا
نہیں ہے جس میں تغیّر کا ذرّہ بھر امکاں
وہ استعارہ رضا ہیں خدا کی سنت کا
ہر ایک وصف میں ہیں مظہرِ صفاتِ خدا
ہر اک صفت میں ہیں عکسِ جلی رسالت کا
قضاو قدر کی تقدیر ہے تری مقدور
حیات و موت ہیں نظّارہ تیری قدرت کا
ہے ما ورائے وجود و عدم عطا تیری
ہے عرضِ عالمِ امکاں نشاں سخاوت کا
ہر ایک جسم پہ ہے ثبت مہرِ جود و کرم
ہر ایک ذرّہ مُقِر ہے تری عنایت کا
گرفتِ دست تری بر زمامِ ہست و بود
شہود و غیب کنارہ تری حکومت کا
تمہارے در سے ملا ہے ہر اک کو من بھاتا
کرم کا بحر ہو زخّار ہو کرامت کا
لئے ہوئے عرقِ انفعال آیا ہوں
شفا کے در سے طلب گار ہوں شفاعت کا
پسندِ خاطرِ احباب گر نہیں، نہ سہی
صلہ نبی سے میں لوں گا رضا کی مدحت کا
بساط بھر تو زبان و بیاں بلند رکھو
نہ ہو جو ایسا تو کیا فائدہ ہے مدحت کا
زمانہ میرا مخالف ہے ہو بلا سے مری
یقین کافی ہے، مجھ کو تری حمایت کا
پرے ہے سرحدِ ادراک سے مگر صائب
قلم کو نوکِ زباں ہے بیاں حقیقت کا