کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۴ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «manqabati ghazal» ثبت شده است

 

انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل* 

بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے

اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے

یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے

یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر  ضروری ہے

سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے

جو  پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے

یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے

وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے

دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"

سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے

نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے

بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے

طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے

صائب جعفری

صائب جعفری
۲ اگست ۲۰۲۱
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:29
ابو محمد
راز نفوس عشق ہے رمز عقول عشق ہے
ہو کے چمن میں جو کھلا پہلاوہ پھول عشق ہے
 
ذرہ سے تا بہ عرش حق حق کی تجلیات میں
عبد خدا وہی ہوا جس کو قبول عشق ہے
 
عجز کے مارے ڈر گئی خلق خدا تو بن گیا
بہر امانت خدا عبد جہول عشق ہے
 
 
قلب نبی پہ ایک بار رب نے اتار دی کتاب
پھر یہ حرا سے خم تلک وحی کا طول عشق ہے
 
 
وحی تمام ہوچکی کب کی مگر یہ آج تک
قدر کی شب میں ہوتا ہے جسکا نزول عشق ہے
 
نقش قدم کا.مصطفی کے ہے یہ معجزہ عجب
راہ روئےصراط احمد کو وصول عشق ہے
 
خال رخ عبودیت، سرمہ چشم حق ہوئی
پائے محمدی.سے اٹھتی ہوئی.دھول.عشق ہے
 
شق قمر ہو رد شمس سارے ہی معجزات میں
قدرت حق کے ساتھ ہے جس کا شمول عشق ہے
 
 
عشق کی چیرہ دستیاں کیوں نہ ہوں دل پسند جب
بدر و احد سے تا بہ طف سارا حصول عشق ہے
 
عشق میں عاشق اور معشوق جدا جدا نہیں
رب رسول عشق ہے رب کا رسول عشق ہے
 
سجدہ شکر شاہ سے سر یہ ہوا ہے برملا
عشق کی اصل دین ہے دیں کا اصول عشق ہے
 
بہر خدا نہ ہو اگر، خواہش نفس ہے فقط
پھر ہو کسی کے ساتھ بھی کار فضول عشق ہے
 
روح تلک اتر گیا قلب کا ان کے اضطراب
جن کی ہوس کی دید میں جسموں کی بھول عشق ہے
 
راہ خدا پہ عرصہ باطل و حق میں صائبا
رزم ابوتراب اور عزم بتول عشق ہے
 
Dec 14,2021 
12:40 AM 
قم ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:41
ابو محمد

بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل


ایسا ہوا تھا اک بار احساس
میرا نہیں تجھ کو یار احساس

میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہے
زر کے جہاں میں بے کار احساس

تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیں
عزت، محبت، اشعار، احساس

پھر آج جیسا شاید نہ ہوگا
حساسیت سے دوچار احساس

آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیں
ہے ذہن پر تیرے بار احساس

لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہے
کرنے لگے اب اغیار احساس

کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکن
ذرہ نہیں کرتا خار احساس

سجدہ بہر صورت لازمی ہے
گرچہ نہیں اب دیں دار احساس

پینا نہیں تو بھرتے ہیں کیوں جام
کرتے نہیں کچھ مے خوار احساس

اس وقت تک مٹ جاتا ہے سب کچھ
ڈستا ہے بن کر جب مار احساس

بولی لگاؤ کوئی کھری سی
میں بیچتا ہوں بیدار احساس

اچھی ہیں سب کی فن کاریاں پر
صائب ہے تیرا شہکار احساس

صائب جعفری
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 July 21 ، 00:35
ابو محمد

انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 April 20 ، 19:53
ابو محمد