کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «غزل غزل» ثبت شده است

خمین ایران میں بزم.استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں.مصرع دیا گیا *ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں* دیا گیا. مقررہ وقت میں تو بس چار شعر ہو سکے تھے بعدہ جب سونے لیٹے تو بلا تفریق زبان و عمر تمام احباب کے فلک شگاف *خراٹوں* نے جب سونے نہ دیا تو کچھ اور شعر بھی ہوگئے سو پیش خدمت ہیں
 
 
کون؟ وہ اور غم بٹانے جائیں
ہاں یہ.ممکن ہے دل دکھانے جائیں
 
راستہ کون روک سکتا ہے
وہ کسی کو اگر جلانے جائیں
 
ہے اسی فکر میں ہراک انساں
طعن کے نیزے کس پہ تانے جائیں
 
اب نہ گل ہے نہ بلبلیں نہ درخت
بات دل کی کسے سنانے جائیں
 
ہم قدامت پسند دیوانے
جائیں کیسے جہاں زمانے جائیں
 
ہے عبث کام پر یہ کرتے ہیں
حسن کو عاشقی سکھانے جائیں
 
کاش کوئی نہ ہو سر محشر
حاصل عشق جب اٹھانے جائیں
 
گر  طبیبوں کے بس کا روگ نہیں
زخم جلاد کو دکھانے جائیں؟
 
اس لئے کنج میں پڑا ہوں چپ
گیت بہروں کو کیا سنانے جائیں
 
ہوگیا ہے یہ حکم بھی صادر
آگئے ہیں نئے پرانے جائیں
 
تیرے دل سے نکالے جانے کے بعد
ہم.کہاں قسمت آزمانے جائیں
 
کاش یہ کہہ سکیں کبھی ہم.بھی
ہم.کو.خواہش نہیں کہ جانے جائیں
 
جملے گھڑ لینا کچھ کمال نہیں
شعر ایسے تو ہوں کہ مانے جائیں
 
سوچتے ہیں یہ شوخ پروانے
کس طرح شمع کو.بجھانے جائیں
 
ہم ہیں روٹھے ہوئے مگر صائب
سوچتے ہیں انہیں منانے جائیں
 
 
صائب جعفری
۴ فروری ۲۰۲۲
خمین ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 February 22 ، 01:00
ابو محمد
 

انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل* 

بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے

اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے

یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے

یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر  ضروری ہے

سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے

جو  پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے

یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے

وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے

دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"

سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے

نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے

بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے

طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے

صائب جعفری

صائب جعفری
۲ اگست ۲۰۲۱
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:29
ابو محمد