کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «علی اصغر» ثبت شده است

بہاروں کی ہے رت موسم ہے عالم میں گلابوں کا
چلو رندوں چلو پھر ذکر ہم.چھیڑیں شرابوں کا
 
مرجب اور معظم ہیں اسی خاطر یہ دونوں ماہ
زمیں پر ان میں اترا ہے قبیلہ آفتابوں کا
 
علاج ظلمت و تحصیل رحمت کے.لئے ہردم
کریں ہم تذکرہ اب فاطمہ کے ماہتابوں کو
 
بدل کر جنگ کے انداز اور ہتھیار کو اصغر
سنوار آئیں ہیں ہنس ہنس.کر مقدر انقلابوں کا
 
رہے اسلام زندہ کفر ہو عالم میں شرمندہ
خلاصہ ہے یہی حق کے صحیفوں کا کتابوں کا
 
کئے تھے راہ گم جس دم علی کے چاہنے والے
خمینی نے دکھایا راستہ تب کامیابوں کا
 
عدالت اور ولایت کا سبق دے کر زمانے کو
خمینی نے بنایا شاہ کو قصہ حبابوں کا
 
 
توکل اور توسل کیجئے ظالم سے مت ڈریے
حسین ابن علی.کا خوں ہے ضامن انقلابوں کا
 
علی کا نام لے جو جو رکھیں سید علی سے بیر
وہ ایسے پیاسے ہیں پیچھا جو کرتے ہیں سرابوں کا
 
عمل سے خود کو ثابت کیجئے علامہ مولانا
نہیں کچھ فائدہ ورنہ لباسوں کا خطابوں کا
 
فراق و ہجر کی سختی میں کیف عشق کی مستی
مزہ لیتا ہے دل  یوں بھی عذابوں کا ثوابوں کا
 
ہماری آنکھ پر ہردے پڑے ہیں تم.نہیں غائب
کہاں تک جائے گا یہ سلسلہ دیکھیں حجابوں کا
 
ہو میرا نام بھی مثل اویس مصطفی لکھا
مرتب ہو اگر محضر کسی دن باریابوں کا
 
سیہ رو ہیں مگر محشر میں پیش خلق دوعالم
بھرم رکھ لینا اے مولا ہمارے انتسابوں کا
 
میں اکثر دیکھتا ہوں خوں کے دریا سے ابھرتا شمس
کوئی مطلب یقینا ہوگا صائب میرے خوابوں کا
 
صائب جعفری
قم ایران
Feb 11,2022 
2:08 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 21:54
ابو محمد
خزاں کے دور میں فصلِ بہار ہے علی  اصغر
 
خدا کے دیں کے عارض کا نکھار  ہے علی اصغر
 
جھلستی دھوپ میں غم کی جو سائبانِ فرحت ہے
 
حُسَیْن کا حَسِیْں ، وہ شاہکار ہے علی اصغر
 
اسی کے گرد ہیں گردش میں کردگار کے الطاف
 
مدارِ رحمتِ پروردگار ہے علی اصغر
 
شہادتوں کا گلشن جس کے خوں کی بو نے مہکایا
 
زمینِ کربلا وہ گل عذار ہے علی اصغر
 
سبب سے جس کے سر، کرب و بلا حسین کر لیں گے
 
بدستِ سرورِ حق وہ اختیار ہے علی اصغر
 
حسین چومتے ہیں   کہہ کہ یہ پسر کے چہرے کو
 
علی کے عزم کا آئینہ دار ہے علی اصغر
 
نکل کے جھولے سے کچلوں غرورِ لشکرِ باطل
 
اسی خیال میں اب بے قرار ہے علی اصغر
 
بڑے بڑے سمجھ پائے نہ استغاثہِ شبیر
 
مگر سمجھ گیا وہ ہو شیار ہے علی اصغر
 
سبھی شہید ہیں اپنی جگہ، مگر بوقتِ عصر
 
میان کربلا شہ کا وقار ہے علی اصغر
 
پدر کی گود میں آیا ہے رو برو وہ لشکر کے
 
عجیب طرح کا اک شہسوار ہے علی اصغر
 
وہ جنگ لڑنے کو لایا ہے تیغ مسکراہٹ کی
 
کہ جانتا فنونِ کارزار ہے علی اصغر
 
لگا جو تیر تو حیدر پکارے مرحبا فرزند
 
علی کو خوں پہ اپنے افتخار ہے علی اصغر
 
فرات در بدر یوں سر پٹکتی پھرتی ہے اب تک
 
تمہاری پیاس سے وہ شرمسار ہے علی اصغر
 
تمہارے عشق سے مخلوط جو ہوا نہیں کرتا
 
جبین کو وہ سجدہ ناگوار ہے علی اصغر
 
یہی تقا ضہِ الفت، یہی وفا شعاری ہے
 
کہ جان و مال سب تم پر نثار ہے علی اصغر
 
اگر بشر نے عالم میں تمہارا در نہیں پایا
 
تو پھر ملا ہے جو کچھ بھی غبار ہے علی اصغر
 
غمِ حیات کی پروا، نہ ہے ممات کا کچھ خوف
 
یہ سب تمہاری الفت کا خمار ہے علی اصغر
 
صلہ نبی کی مدحت کا ملے گا آپ کو لیکن
 
ثبوت، عشقِ احمد کا، اے یار، ہے علی اصغر
 
اگر ہیں آپ کے عاشق سبھی تو پھر بتا دیجے
 
کہ مومنین میں کیوں خلفشارہے، علی اصغر
 
یہی ہے قبر کی سختی میں باعث صد اطمینان
 
یہ آپ پر مجھے جو اعتبار ہے علی اصغر
 
بوئے ولا سے یوں مہکی ہوئی ہے فکر صائب کی
 
کہ دل میں عشق تیرا مشکبار ہے علی اصغر

 

۰۶ اپریل ۲۰۱۷ء، ۸ رجب ۱۴۳۸

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 April 19 ، 01:38
ابو محمد