کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «بت شکن» ثبت شده است

موسسہ تنظیم و نشر آثار امام.خمینی علیہ الرحمہ کی جانب خمین ایران میں منعقدہ شب شعر بعنوان "خمینیون" میں پڑھا گیا کلام
مورخہ ۳ فروری ۲۰۲۲(۱ رجب ۱۴۴۳/ ۱۴ بھمن ۱۴۰۰)

کفر کی تاریک شب کا دور تھا
زنگ تھا دیں پر چڑھا الحاد کا

دین کی بستی میں دیں مفقود تھا
علم بس صفحات تک محدود تھا

بے حیائی کوچہ کوچہ عام تھی
شرم و عفت مورد الزام تھی

امت خاتم کھڑی تھی بے اماں
تھی محمد کی شریعت نیم جاں

غرق تھی اپنے جنوں میں سلطنت
ہر طرف گاڑے تھی پنجے شیطنت

پاک و پاکیزہ زمیں ایران کی
کافروں کے کھیل کا میدان تھی

کفر کی اور شرک کی تھیں مستیاں
حق بیاں کرنے پہ تھیں پابندیاں

تھا یہ استکبار عالم کا خیال
بالیقیں اسلام ہوگا پائمال

ایسے میں اک سید و سردار نے
دشمنوں کو دین کے للکار کے

دھر کو اک بار پھر سمجھا دیا
غیب کی امداد کا مطلب ہے کیا

علم کو اس نے عمل میں ڈھال کر
دے دیا مظلوم آہوں کو اثر

یاعلی مولا مدد کے زور پر
دشمنوں کو کر دیا زیر زبر

ظلم اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا
کاخ کفر و شرک سارا ڈہ گیا

انبیائے ما سلف کا تھا یہ خواب
نام ہے جسکا خمینی انقلاب

تازگی دی اس نے ہی اسلام کو
دی حیات جاوداں احکام کو

ظلم و استبداد کو دے کر شکست
ظالموں کے قد کئے ہیں تو نے پست

السلام اے مرد مومن السلام
بت شکن حضرت خمینی اے امام

انقلاب حق کے ہمرہ اب مدام
تا ابد زندہ رہے گا تیرا نام

انقلاب حضرت مہدی کے ساتھ
متصل ہوکر یہ پائے گا ثبات

صائب جعفری

Feb 03,2022 
8:24 PM 
خمین ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:24
ابو محمد

 

*موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی قم* میں ہفتہ وحدت کے عنوان سے منعقدہ محفل میں پیش.کئے گئے اشعار

برائے دین نبی کھل چکا تھا سرخ کفن
سرائے دہر میں ابلیسیت تھی خیمہ زن

تمام ہونے کو تھی لَو چراغ وحدت کی
خزاں کی نذر ہوا تھا شہادتوں کا چمن

نفاق و کفر سے سازش ہوئی تو کرنے لگی
ہوائے نفس بھی پیدا فضائے دیں میں گھٹن

دیارِ عشق میں حرص و ہوس کا موسم تھا
لگا ہوا تھا وفاوں کا آفتاب گہن

نوائے عشق پہ غالب تھے ساز ہائے طرب
لگائی شرک نے آواز حق پہ تھی قدغن

اٹھا پھر ایسے میں اک پیر مرد ابنِ بتول
نحیف زار بظاہر، تھا اصل میں آہن

لرزرہے تھے صنم خانہِ جہاں کے رکن
بتوں کے دیس میں اک بت شکن تھا جلوہ فگن

یہ جانتا تھا وہ توحید آشنا غازی
کہ کائنات ، درونِ بشر کو ہے درپن

وہ ماورائے طبیعت سے کھینچ لایا مدد
تھے شش جہاتِ جہاں جب بنے ہوئے دشمن

علی کے عشق میں مالک کی مثل ہر لحظہ
مثالِ آئینہ اعمال تھے برائے سخن

صد آفرین خمینی بفیض مصحفِ حق
شکست دے گئی   ہر شیطنت کو تیری لگن

یہ سِر بھی کردیا عالم پہ روز سا روشن
علی کے نام سے ہوتی ہے سہل کیسے کھٹن

ترے تفکر حق سے جہاں ہوا بیدار
اسی سے سینہ باطل کی بڑھ رہی ہے گھٹن

ہر ایک دشمن حق سے مقابلے کے لئے
جہاں پسند ہوا ہے تمہارا چال چلن

ترا عمل سے مسلمان ہوگئے بیدار
ترے طفیل ہی راہ جہاد ہے روشن

بنایا وحدت امت کو تو نے اپنا شعار
کہ اب لباس پہ اسلام کے پڑے نہ شکن

یہ انقلاب ہے تیرے ہنر کا ایک نشاں
جنجھوڑ ڈالا ہے جس نے ہرایک خفتہ تن

صائب جعفری
قم المقدس
۲۱ اکتوبر ۲۰۲۱

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 22:04
ابو محمد