طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے(مقبت)
طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے
فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے
تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے
تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے
فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے
"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"
بکھیرنے لگے ایسے میں روشنی سجاد
اندھیرے کفر کے دنیا پہ جب تھے چھائے ہوئے
فرازِ عرش تھا جس کا مقام، بہر خدا
وہ راہِ شام سے گذرا ہے سر جھکائے ہوئے
کرے تو کیسے کرے اب سوال بیعت کا
یزید بیٹھا ہے عابد سے منہ کی کھائے ہوئے
عجب سپاہی تھا تنہا ہی شام و کوفہ کو
وہ جیت آیا بنا تیغ کے چلائے ہوئے
ابھی تلک تری تدبیر اور سیاست پر
چڑے ہوئے ہیں یزیدی ہیں سٹپٹائے ہوئے
انہی کے نام پہ بیٹھے ہیں حضرت بہلول
زمیں پہ خلد بریں کی دکاں لگائے ہوئے
پڑے سجدہ معبود میں خدا کی قسم
تمہارے نقشِ کف پا پہ سر جھکائے ہوئے
چلے ہیں دار کی جانب بصد خلوص و وفا
تمہارے عشق کا الزام سر اٹھائے ہوئے
بیان کر دیا سب اشک بار آنکھوں نے
خموش بیٹھے تھے ہم دل میں جو چھپائے ہوئے
زبور آل محمد کا سب کرشمہ ہے
ہم آپ اپنے خدا سے جو ہیں بنائے ہوئے
کمال کیا ہے جو صائب میں شعر لکھتا ہوں
کہ لفظ سارے انہی کے تو ہیں سکھائے ہوئے
۴ فروری و۲۰۱۷