اہل تولیٰ آؤ زباں بے قرار ہے
سر پر مرے تبرا کا سودا سوار ہے
اُس دور کے یزید پہ لعنت ہو بے حساب
اِس دور کے یزید پہ بھی بے شمار ہے
بوزینہ یزید ہے بد عقل و بدقماش
جس کو بھی آج ذکر غزہ ناگوار ہے
لاریب ہیں یزید زمانہ کے خصیتین
سید علی.کے بغض کا جن کو بخار ہے
صیہونیت کے ظلم بیاں جو نہ.کرسکے
وہ.مقعد الاغ کا آئینہ دار ہے
بل.ھم اضل وہی ہے کہ جس بے شعور کو
خون غزہ میں ڈوبے کبابوں سے پیار ہے
شاکر حرام پر ہیں یا ہیں طالب گناہ
جن سے رخ سقیفہ پہ اب تک بہار ہے
دے گالیاں سقیفہ کو لیکن بتا کہ کیوں
امریکیوں کے نام سے گیلی ازار ہے؟
ڈوبے ہوئے ہیں شیعوں کے خوں.میں ترے بھی ہاتھ
گالی کو تو نے سمجھا تبرے کا ہار ہے
جس چوتیا کو.مقصد شہ کی.نہیں.خبر
منبر پہ اس کو لائے جو وہ نابکار ہے
قم اور نجف بناتے انہیں کیسے آدمی
برطانیہ کے.مُوت کا جن کو خمار ہے
امر و نہی حسین کا جس پر نہیں کھلا
بوجہل کی وہ معنوی اک.یادگار ہے
بہتان باندھتا ہے شہ تشنہ کام پر
ابن.زیاد و شمر سا تو نابکار ہے
صائب جعفری
قم.ایران
Sep 12,2024
4:23 PM
وہ ظل الہی عالم میں رونق دہ محفل ہوتا ہے
یوں آج نظام ہستی کا منظومہ کامل ہوتا ہے
ظلمات کا سینہ چاک ہوا ابلیس کا.ارماں.خاک.ہوا
دنیائے رذائل میں ظاہر خورشید فضائل ہوتا ہے
یوں آج دیار کثرت میں جلوہ فرما وحدت ہوگی
قرآن ناطق پر قرآن سامط نازل ہوتا ہے
بیدار جہاں کو کرتی ہے اقرا بسم ربک کی سحر
اصنام دور جہالت کا اب جادو باطل ہوتا ہے
جو اول آخر ظاہر باطن کا سمجھاتا ہے مطلب
وہ نور بصیرت بعثت پیغمبر سے حاصل ہوتا ہے
کچھ دیر خیال دنیا سے غفلت کارویہ ہے درکار
یہ وصل الہی کی شب ہے کیوں فیض سے غافل ہوتا ہے
جبریل رکے براق تھما لیکن یہ شرف انساں کو ملا
یہ تنہا عبد ہے جو عالم میں ھو کے داخل ہوتا ہے
پروانۂ شمع حق ہے بہت ناپختہ کار عرصۂ عشق
گر غرفۂ جنت کی خاطر سرکار پر مائل ہوتا ہے
اے راہروئے تبلیغ دیں، یہ رستہ نہیں آسان گذر
اس رہ میں اُحد بھی آتی ہے طائف بھی حائل ہوتا ہے
بے خوف اتار سفینے کو گھبرا نہ تلاطم سے سن لے
اس بحر عشق محمد کی ہر موج میں ساحل ہوتا ہے
تب جاکے کہیں اک بیت ثنا بنتا ہے بہائے بیت جناں
جب علم شعر و خون جگر بھی عشق میں شامل ہوتا ہے
اس در سے ہی ملتا ہے صائب خالق تک.جانے کا.رستہ
جس در پر ریاض امکاں کا ہر ممکن.سائل ہوتا ہے
Feb 07,2024
2:29 AM
راہِ الفت کو اختیار کیا
پھول ہر زخم کو شمار کیا
غنچہِ شاہِ دیں نے کملا کر
ایک صحرا کو مرغزار کیا
تو نے اپنے لہو کی سرخی سے
حق کے جلووں کو تاب دار کیا
لے کے گردن پہ تیرِ سہ شعبہ
اپنے قاتل کو ہی شکار کیا
تو نے تقریرِ بے زبانی سے
حق و باطل کو آشکار کیا
نور نے تیری مسکراہٹ کے
پردہِ ظلم تار تار کیا
جس طرح شیر تاکتا ہے شکار
تیر کا تو نے انتظار کیا
ہنس کے توڑا غرورِ باطل کو
معجزہ تو نے شیر خوار کیا
شہ کے بے شیر کا کیا مدّاح
یہ کرم تو نے کردگار کیا
خونِ اصغر نے تیغ پر خوں کو
کامیابی سے ہمکنار کیا
الفتِ شیر خوار نے صائب
کتنے ذرّوں کو شاہکار کیا
2015
یہی ہے اک دعائے قلب عاشق
زباں ہوجائے مدح حق کے لائق
وما ادراک ماالطارق کا.مصداق
جہان کفر میں ہے علم صادق
زباں نے آپ کی کھولے جہاں پر
خدائی دیں کے پوشیدہ حقائق
پئے ارزاق علم حق خدا نے
بنایا جعفر صادق کو رازق
نہیں ہے قال صادق کا جو قائل
منافق ہے منافق ہے منافق
مکمل کامیابی بس یہی ہے
حیات و موت ہوں ان کے مطابق
زمام زیست دیجے ہاتھ ان کے
نہ ہوگی فکر پھر محشر کی لاحق
شراب علم اب بھی دیں گے جعفر
زرارہ سا کوئی پائیں جو شایق
مریض جہل و شک اے کاش سمجھے
طبیب ان سا نہیں کوئی بھی حاذق
نہ جانے ہوگا استقبال کیسا
بہت تاریک ہیں میرے سوابق
مگر یہ حال ہے اس حال میں ہیں
تمہارے نام میرے سب دقائق
میں صائب جعفری ہوں میرے مولا
بھرم رکھنا مرا پیش خلائق
صائب جعفری
قم ایران
19 Sep,2024
کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی.کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں.بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہوگا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
وبال جان ہی بن جائے گا کمال سخن
نصیب سے جو ہوئے اپنے دودماں پتھر
دعائے نیم شبی رائیگاں نہیں جاتی
یہ شہریار کا مصرع ہے کیا گراں پتھر
تمہارے نام کی جس دم صدا لگاتا ہوں
تو سرخرو مجھے کرتے ہیں.مہرباں پتھر
بناوٹی ہے محل اور جھونپڑی کا فرق
سبھی کے آخری گھر کا ہے جب نشاں پتھر
صائب جعفری
۲۹ ستمبر ۲۰۲۲
قم ایران
امام علی نقی علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ برتاؤ
مقالہ نگار: سید صائب جعفری
حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران
سال ۲۰۲۲/۱۴۴۳
مقدمہ
ہمارے آئمہ علیہم السلام کی تمام تر سیاسی اور سماجی زندگی اسلام دشمن عناصر کے مقابلہ میں اسلام کی حفاظت میں گذری۔ آئمہ علیہم السلام چونکہ کامل انسان ہیں لہذا ان کا قول، فعل اور تقریر الہی اقدار کے بیان پر مشتمل ہے اور باقی انسانوں کے لئے حجت ہے۔ دین پر کاربند ہونے اور سماجی و سیاسی احوال پر توجہ دینا تمام آئمہ کی زندگی کا مشترک طرہ امتیاز ہے۔
آئمہ کی زندگی کا ایسا ہی ایک مشترک پہلو غالیوں اور ضعیف العقیدہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں واضح ہے وہ یہ کہ غالیوں کے بہت سے گروہ امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں دنیا کمانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئمہ اہل بیتؑ کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ اس کام کے لئے اور اپنے مقصد کو جلد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا اور آئمہ کو مقام نبوت بلکہ الوہیت تک پہنچا دیا۔
اس گروہ کی ان حرکتوں سے نمٹنے کے لئے ہر امام نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا تاکہ ان کی غلط تبلیغ سے اسلام کے دامن کو اور مسلمانوں محفوظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں امام علی نقی علیہ السلام نے بھی کچھ عمل اقدامات کئے تاکہ ان غلط عقائد کو کم ترین درجہ تک لے جایا جاسکے اس طرح سے کہ معاشرہ میں کوئی ہرج و مرج کی کیفیت پیدا نہ ہو۔اس کے باوجود بعض مقامات پر امام علیہ السلام کو بہت سختی سے بھی کام لینا پڑا اور کئی مقامات پر آپ علیہ السلام نے اس گروہ سے برأت کا اظہار بھی کیا۔امام ؑ نے ہر موقع پر یہی کوشش کی کہ اسلام اور تشیع کے دامن پر اس منحرف گروہ کی وجہ سے کوئی داغ نہ آئے۔
یہ مقالہ بھی اسی سلسلہ میں تصنیف کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام کے دور کی سیاسی اور سماجی کیفیت اور حالت کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے غالیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اس کی تحقیق کی جائے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واضح کیا جائے کہ امام علیہ السلام نے کس طرح تشیع کی سرحدوں کو تمام منحرف العقیدہ فرقوں کے عقائد سے جدا کرکے واضح کیا۔
اس مقالہ کے لئے عربی اور فارسی کتب اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ لہذا حوالہ جات کو اردو تراجم کے صفحات کی بنیاد پر نہ جانچا جائے بلکہ اصل منابع کی جانب رجوع کیا جائے جن کی تفصیلی فہرست مقالہ کے آخر میں درج کی جائے گی۔
مسئلہ کا بیان
خدا وند متعال اور رسول گرامی قدر ﷺ نے اپنے اہل بیتؑ کو امت اسلامیہ کو انحرافات کے بھنور سے نکالنے کے لئے چنا تھا۔ ان آئمہ کی ہدایت آمیز گفتگو کو سن کر اس پر عمل کرنا ہی وہ واحد راستہ جو انسان کو ہدایت یافتہ بنا سکتا ہے۔
پیغمبرﷺ اور آئمہؑ کا ایک کلی منصوبہ، اسلام اور عقائد اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت تھا۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے روز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ رسولﷺ کے بعد ہر ایک امام نے اپنے زمانے کی مخصوص شرائط کے اعتبار سے اس منصوبہ کو آگے بڑھایا۔
امام علی نقی علیہ السلام کا زمانہ استبداد اور گھٹن سےمملو تھا۔ حکومتی کارندوں اور جاسوسوں کی ہر وقت کی کارستانیوں کے سبب امام علیہ السلام اسلامی ثقافتی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس لحاظ سے امام نقیؑ کا زمانہ امام باقر اور امام صادقؑ کے زمانے سے زیادہ پرآشوب کہا جاسکتا ہے۔
امام نقیؑ کے دور کی اہم ترین خصوصیت، امام علیہ السلام کا اپنے دور کے انحرافی فرقوں اور شخصیات کے ساتھ برتاؤ ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا دور امامت قسم قسم کے عقیدتی اور فکری فرقوں کے ظہور کا دور ہے۔ اس دور میں فقہ، اصول، کلام اور تفسیر کے نئے نئے مذاہب رونما ہوئے۔ یہی دور تھا کہ جس میں بہت سے الحادی گروہ بھی ظاہر ہوئے اور انہوں نے شیعوں کے عقائد کو پوری طرح سے مسخ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس کام کے لئے ان گروہوں نے تفسیر بالرائے اور احادیث میں تحریف کا سہارا بھی لیا۔ ان تمام انحرافی فرقوں سے مذہب حقا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری امام علی نقی علیہ السلام کی کاندھوں پر تھی۔
امام علیہ السلام کے دور میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فساد کی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ اس کام میں غالیوں کے فرقہ پیش پیش تھے۔ اسی مقالہ میں ان شاء اللہ ہم غالیوں کے عقائد اور ان کے فکری تانوں بانوں کی تحقیق کے دوران واضح کریں گے کہ ان کے عقائد اور ان کا کلام اہل بیت کے نورانی کلام کے بالکل خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ اپنے عقائد کے پرچار اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے سے ان غالیوں کا مقصد سادہ لوح عوام کو اپنی جانب کھینچ کر شیعوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔
اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دئیے جاسکیں۔
۱۔ غالی کون ہیں اور ان کے اہم ترین عقائد کیاہیں؟
۲۔ امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ان غالیوں کی سرگرمیاں کیا تھیں؟
۳۔ امام علی نقی علیہ السلام نے ان غالیوں سے کس طریقہ سے مقابلہ کیا؟
امام نقی علیہ السلام کے دور کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات
شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق، امام نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیمہ ذیحجہ ۲۱۲ ھ۔ق کو ہوئی (کافی جلد ۱ ص ۵۲، الارشاد صفحہ ۳۲۷، الکامل فی التاریخ جلد۷ صفحہ۱۸۹)۔ خطیب بغدادی نے آپ علیہ السلام کی ولادت ماہ رجب ۲۱۴ ہجری لکھی ہے( تاریخ بغداد جلد ۲ صفحہ ۵۷)۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا جن کو سوسن بھی کہا جاتا تھا اور امام حسن عسکری آپ ہی کے بطن سے تھے( اثبات الوصیہ، صفحہ ۲۲۰، فصول المھمہ صفحہ ۲۷۷)۔ امام نقی علیہ السلام کو ۲۳۳ ہجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہمراہ سامرا منتقل کیا گیا تھا اور آپ ؑ اپنی شہادت تک سامرا میں ہی مقیم رہے۔
انجمن طلاب کھرمنگ بلتستان کی طرحی محفل کے لئے لکھا گیا کلام....
کفر کی تاریکیوں میں اک دیا قرآن ہے
معرفت در معرفت کا سلسلہ قرآن ہے
ہو ازل سے بے عدیل و تا ابد ہو لا جواب
معجزہ ایسا فقط حیدر ہیں یا قرآن ہے
دیکھ.لیتی.ہے سرائے دہر میں حسن و جمال
جس نگاہ شوق کا بھی زاویہ قرآن ہے
کاسہ دل کی طلب دونوں جہاں کے واسطے
ایک اہل بیت ہیں اور دوسرا قرآن ہے
حجت حق تک جو لے جائے بلا تردید و شک
کل بھی تھا اور آج بھی وہ راستہ قرآن ہے
در بدر یوں مت بھٹک بہر حیات طیبہ
*اک.مکمل زندگی کا ضابطہ قرآن ہے*
نامہ اعمال ہوگا نورافشاں حشر میں
زندگی کی نظم کا اب قافیہ قرآن ہے
جب کہا رمال نے تعویذ دوں بہر نشاط
تب جوابا میں پکارا، شکریہ، قرآن ہے
جنت و دوزخ کے ٹھیکدار سن لے کہہ رہا
لیس للانسان الا ما سعی قرآن ہے
لا تخف مومن فقط ایمان رکھ اللہ پر
مژدۃ لا تقنطوا جب دے رہا قرآن ہے
کیوں بھلا مایوس ہوجاؤں گناہوں کے سبب
درد عصیاں کے لئے صائب دوا قرآن ہے
صائب جعفری
قم اہران
Apr 28,2022
10:03 AM
ہے بجا کہ ظل خالق ہے وجاہت محمد
تو دیار کن ہے جلوہ پئے فطرت محمد
ہے سبب تمام عالم کا وجود مصطفیٰ پر
نہیں کبریا سے ہٹ کر کوئی علت محمد
یہ خدا کا فیض ہم.تک جو پہنچ رہا ہے ہر دم
تو یقین جانئے ہے بوساطت محمد
نہ.ہوں عاشق اور معشوق جدا جدا جہاں پر
وہی رنگ ہے خدا کا وہ ہے صبغت محمد
نہ.سمجھ سکے مدینہ.کے وہ.شیخ.و.شاب حد ہے
کہ یہ بضعۃ محمد ہے بضاعت محمد
یہ حدیث کلناسے ہے مری سمجھ میں آیا
کہ چہار دہ نظاروں میں ہے وحدت محمد
سر عرش دو کمانوں سے بھی کم.کے فاصلے پر
یہ کھلا علی مکمل ہے حقیقت محمد
جو انہیں سمجھ رہا ہے بشر اپنے جیسا دیکھے
ذرا آئینے میں اسریٰ کہ وہ صورت محمد
جو خدا کو ڈھونڈتے ہو تو ادھر ادھر نہ بھٹکو
تمہیں رب ملے گا لیکن بروایت محمد
تھا بروز فتح مکہ یہ بتا دیا جہاں کو
کہ سخاوت و معافی ہے طریقت محمد
کرے کیا بیان انساں کوئی نعت مصطفی کی
کہاں عقل کی تناہی کہاں وسعت محمد
یہاں آئیں گے فرشتے یہاں آئیں گے علی بھی
مرے لب پہ آنے دیجے ابھی مدحت محمد
ترا شکریہ خدایا مرے دل.کو پا کے تنہا
اسے تو نے کر دیا جائے سکونت محمد
یہ ہے کربلا کا میداں یہاں آپ کو ملے گی
کہیں سیرت محمد کہیں صورت محمد
اسے مسجد اور محراب میں کیجئے نہ.محدود
رہ حق میں کھانا پتھر بھی ہے سیرت محمد
تھا سوال کس سے سیکھی ہے یہ حق بیانی تو نے
تو زباں پہ میری جاری ہوا حضرت محمد
مری فکر نے جو.پایا انہیں راز دان اپنا
تو ملا نیا یہ مطلع پئے خدمت محمد
بھلا اس سے بڑھ کے ہوگی کوئی غربت محمد
کہ سبک ہوئی جہاں میں ہے شریعت محمد
یہ اگر نہیں تقمص تو بتا دے اور کیا ہے
تو نے.کھینچ تان پہنی ہے جو خلعت محمد
تجھے کیسے طالب علم میں مان لوں بتادے
تو عمل سے کر رہا ہے جو مذمت محمد
یہی ہوگا میرا تمغہ جو میں کہہ سکوں یہ صائب
"سر دار لے چلی ہے مجھے الفت محمد"
صائب جعفری
قم ایران
Feb 28,2022
7:50 PM
*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت*
*تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*
*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر*
*جسے سید علی کَھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*
*ولایت کا تسلسل ہے ولایت خامنہ ای کی*
*اسے تقصیر کہنے والے ہر مردار پر لعنت*
*کمیت و حمیری، دعبل سے مداحوں پہ رحمت اور*
*جو بھونکے عالموں پر ایسے بدبودار پر لعنت*
*علی کے سچے عاشق سیستانی خامنہ ای ہیں*
*جو ان سے بیر رکھے ایسے استعمار پر لعنت*
*سلام ان مومنوں پر جو رہِ حیدر پہ ہیں، لیکن*
*مقصر، غالی اور ان کے ہر اک حب دار پر لعنت*
*جہاں چرسی موالی اور نُصیری پیر کہلائیں*
*ہو ایسی فکر اور اس فکر کے معمار پر لعنت*
*یہ فن شاعری ہے اک امانت حضرت حق کی*
*خلاف حق جو برتے اس خیانت کار پر لعنت*
*سبب ترویج حق کا ہے وجود نائب مہدی*
*تو پھر صائب دکھاوے کے ہراک دیں دار پر لعنت*
صائب جعفری
Feb 18,2022
2:32 AM
قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام
پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہے
ہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے
یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیں
یہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے
شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تب
پئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے
جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے
وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے
یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے مجھے اس کا خوف نہیں کوئی
ترے راستے پہ ہوں گامزن مرا فیصلہ ترے ہاتھ ہے
میں رہ نجات تلاشتا تھا یہاں وہاں تو کھلا یہ راز
جو علی کی یاد میں ہو بسر اسی شب کا نام.نجات ہے
مرا دھن ہے عشق ابوتراب مرا خوں بہے سر کارزار
تو میں جان لوں کہ ادا ہوئی مرے مال کی بھی زکات ہے
کبھی پڑھ کتاب وجود کو تو کھلے گا تجھ پہ ورق ورق
کہیں مصطفیٰ کے ہیں تذکرے کہیں بوتراب کی بات ہے
نہیں کچھ عمل مرے پاس پر ہے مجھے یقیں ترے فیض سے
مری شاعری تری منقبت ہوئی داخل حسنات ہے
جو اضافتوں میں الجھ گیا اسے صائب اسکی خبر نہیں
کہ علی ولی کی صراط پر یہ جو موت ہے یہ حیات ہے
صائب جعفری
قم ایران
Feb 14,2022
2:34 AM
محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقی
مجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی
صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیں
سیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی
منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوال
یحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی
سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق ناب
وہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی
میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفے
مشکل گھڑی میں.جب بھی پکارا ہے یا تقی
قم.میں سلام.کرتا ہوں بی بی.کو جاکے میں
دیتے ہیں کاظمین میں مجھ کو دعا تقی
دنیا کی نعمتوں کی طلب اپنی جا مگر
ہے گوہر مراد تمہاری ولا تقی
درکار کب غلام کو نام و نمود ہے
تمغہ ہے اس کے واسطے تیری رضا تقی
پیکار کر رہا ہوں جو عالم.نماؤں سے
پایا ہے اس کا آپ ہی سے حوصلہ تقی
یہ فیصلہ خدا کا ہے مصرع نہیں فقط
ہوتا رہے ہمیشہ ترا تذکرہ تقی
جائے گا پیش کبریا صائب بھی ایک دن
نقش قدم پہ آپ کے چلتا ہوا تقی
صائب جعفری
قم.ایران
Feb 12,2022
4:47 PM
انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل*
بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے
اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے
یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے
یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر ضروری ہے
سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے
جو پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے
یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے
وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے
دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"
سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے
نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے
بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے
طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے
صائب جعفری
*ما رأیت الا جمیلا*
جمال حق کی نشاں دہی ما رأیت الا جمیلا
ہے کربلا کا نچوڑ بھی ما رأیت الا جمیلا
یہ راہ حق ہے جزع فزع سے بچا کے ایماں محبوں
مثال زینب کہو سبھی ما رأیت الا جمیلا
حسین کی لاش پر جو پہنچی وہ درد و غم کی ستائی
تو گر کے لاشے پہ کہہ اٹھی ما رأیت الا جمیلا
وہ کربلا خاک و خوں کا دریا جہاں قضا چار سو تھی
وہیں عبارت یہ تھی لکھی ما رأیت الا جمیلا
عطش کی شدت سے قصر باطل تو ڈہ چکا تھا کبھی کا
سوال بیعت کی موت تھی ما رأیت الا جمیلا
بچا کے لائی جو بعد قتل حسین عابد کو زینب
پکارے ہوں گے یہی نبی ما رأیت الا جمیلا
وہ جلتے خیموں کے درمیاں بھی نماز شب پڑھ رہی ہے
اور اس کی چادر ہے چاندنی ما رأیت الا جمیلا
جمی تھی عرصے سے روئے اسلام پر بنام خلافت
وہ گرد زینب نے صاف کی ما رأیت الا جمیلا
علی کی بیٹی علی کے لہجے میں لب کشا جب ہوئی تو
محل میں گونجی صدا یہی ما رأیت الا جمیلا
ہیں شام و کوفہ میں کربلا میں یوں محو نظّارہ حق
کہ سانس بھی ہے پکارتی ما رأیت الا جمیلا
سناں پہ سب اقربا کے سر تھے بدن تھے ریگ تپاں پر
مگر سخن تھا یہ زینبی ما رأیت الا جمیلا
وہ شام شر وہ دمشق الحاد تھا جسے تو نے زینب
بنا دیا شہ کا ماتمی ما رأیت الا جمیلا
تمہارا مرہون منت اسلام آج بھی کہہ رہا ہے
یہ کہنا ہمت تھی آپ کی ما رأیت الا جمیلا
ِ ہمیں بھی بنت نبی کی صورت یہ کہنا ہے آج صائب
خوشی کا مو قع ہو یا غمی ما رأیت الا جمیلا
صائب جعفری
قم ایران
Aug 24,2021
8:50 PM
ہے دین کا سرمایہ ھیھات مناالذلہ
پیغام ہے کربل کا ھیھات مناالذلہ
شہ نے سوال بیعت کہہ کر یہی ٹھکرایا
ہم ہیں نبی کا کنبہ ھیھات مناالذلہ
چاہے کٹے گھر سارا قیدی بنے سب کنبہ
ظالم سے ہے ٹکرانا ھیھات منا الذلہ
سن حاکم یثرب مثلی لا یبایع مثلہ
کہہ دے خلیفہ سے جا ھیھات مناالذلہ
شب بھر رہے گا قیدی پر صبح دم آئے گا
حرِّ دلاور کہتا ھیھات مناالذلہ
وہ عصر کا ہنگامہ شبیر کا وہ سجدہ
بے نطق ہی.کہتا تھا ہیہات مناالذلہ
گو سخت وہ منزل تھی شبیر نے پر سر کی
بیٹا تھا اربا اربا ھیھات مناالذلہ
شش ماہہ تھا پیاسا تھا سوکھا گلہ لایا تھا
پر تیر تھا سہ شعبہ ھیھات مناالذلہ
شبیر کی نصرت میں شیر خدا کا ضیغم
شانے کٹا کر بولا ھیھات مناالذلہ
احلی عسل سے جسکو تھی موت وہ قاسم بھی
میدان میں ہے بکھرا ھیھات مناالذلہ
جون و حبیب و مسلم کلبی بریر و حجاج
شہ کا بنے ہیں فدیہ ھیھات مناالذلہ
عون و محمد قاسم عباس اکبر اصغر
اک اک کا دیکھا لاشہ ھیھات مناالذلہ
انصار شاہ دیں کے بے دم.پڑے ہیں رن.میں
شہ رہ گئے ہیں تنہا ھیھات منا الذلہ
خنجر لئے اک ظالم سوئے نشیب آتا ہے
سرور ہیں محو سجدہ ھیھات مناالذلہ
شبیر کی.گردن پر ضربیں لگاتا ہے شمر
اور دیکھتی ہے بہنا ھیھات مناالذلہ
نوک سناں پر شہ کے سر نے کیا ہے اعلاں
آ دیکھ لے اے دنیا ھیھات منا.الذلہ
دربار میں کوفہ کے اور شام کے محلوں میں
زنجیر کا تھا ںغمہ ھیھات من الذلہ
اعلاں ہےفتح سرور کا شام اور کوفہ میں
بنت علی کا خطبہ ھیھات منا الذلہ
دریا کنارے رن میں خون و عطش سے دیکھو
ہارا ہےباطل ہارا ھیھات منا الذلہ
عزت خدا کی ہے بس سن اے بن مرجانہ
ذلت ہے تیرا حصہ ھیھات منا الذلہ
مقتول باعزت ہے قاتل ذلیل و رسوا
یہ فیصلہ ہے رب کا ھیھات مناالذلہ
سرور تو سرور تھے پر بچوں سے بھی ظالم تو
بیعت نہیں لے پایا ھیھات مناالذلہ
ہم ہیں علی کے پیرو شبیر کے خادم ہیں
سو اپنا بھی ہے نعرہ ھیھات منا الذلہ
کیا خوب ہے اے صائب تلخیص عاشورا کی
شبیر کا یہ جملہ ھیھات منا.الذلہ
صائب جعفری
۲ محرم الحرام ۱۴۴۳
Aug 11,2021
10:09 PM
قم ایران
تہران میں پاکستانی سفارت خانہ میں اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں
پڑھے گئے
عزیز رہبر ملت سلام ہو تم پر
نقیب لشکر حجت سلام ہو تم پر
نصیب ہر کس و ناکس کو کب ہے یہ رفعت
اے انتخاب شہادت سلام ہو تم.پر
تمہارے نام سے لرزاں ہے اب بھی کفر کا جسم
مجاہدین کی ہیبت سلام ہو تم پر
ریاض عشق کے پودوں کی آبیاری کو
ہوئے ہو خون میں لت پت سلام ہو تم پر
صراط حیدر کرار پر بڑھاتے قدم
چلے گئے سوئے جنت سلام ہو تم پر
لہو سے اپنے پھر اک بار تم نے کر ڈالا
نصیب کفر ہزیمت سلام ہو تم پر
رہ امام دکھانے کو بن گئے قاسم
چراغ راہ ہدایت سلام ہو تم پر
دعا ہے صائب خستہ جگر کو مل.جائے
تمہارے پہلو میں تربت سلام ہو تم پر
صائب جعفری
۱۵ نومبر ۲۰۲۰
قم ایران
موسسہ تنظیم و نشر آثار امام.خمینی علیہ الرحمہ کی جانب خمین ایران میں منعقدہ شب شعر بعنوان "خمینیون" میں پڑھا گیا کلام
مورخہ ۳ فروری ۲۰۲۲(۱ رجب ۱۴۴۳/ ۱۴ بھمن ۱۴۰۰)
کفر کی تاریک شب کا دور تھا
زنگ تھا دیں پر چڑھا الحاد کا
دین کی بستی میں دیں مفقود تھا
علم بس صفحات تک محدود تھا
بے حیائی کوچہ کوچہ عام تھی
شرم و عفت مورد الزام تھی
امت خاتم کھڑی تھی بے اماں
تھی محمد کی شریعت نیم جاں
غرق تھی اپنے جنوں میں سلطنت
ہر طرف گاڑے تھی پنجے شیطنت
پاک و پاکیزہ زمیں ایران کی
کافروں کے کھیل کا میدان تھی
کفر کی اور شرک کی تھیں مستیاں
حق بیاں کرنے پہ تھیں پابندیاں
تھا یہ استکبار عالم کا خیال
بالیقیں اسلام ہوگا پائمال
ایسے میں اک سید و سردار نے
دشمنوں کو دین کے للکار کے
دھر کو اک بار پھر سمجھا دیا
غیب کی امداد کا مطلب ہے کیا
علم کو اس نے عمل میں ڈھال کر
دے دیا مظلوم آہوں کو اثر
یاعلی مولا مدد کے زور پر
دشمنوں کو کر دیا زیر زبر
ظلم اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا
کاخ کفر و شرک سارا ڈہ گیا
انبیائے ما سلف کا تھا یہ خواب
نام ہے جسکا خمینی انقلاب
تازگی دی اس نے ہی اسلام کو
دی حیات جاوداں احکام کو
ظلم و استبداد کو دے کر شکست
ظالموں کے قد کئے ہیں تو نے پست
السلام اے مرد مومن السلام
بت شکن حضرت خمینی اے امام
انقلاب حق کے ہمرہ اب مدام
تا ابد زندہ رہے گا تیرا نام
انقلاب حضرت مہدی کے ساتھ
متصل ہوکر یہ پائے گا ثبات
صائب جعفری
Feb 03,2022
8:24 PM
خمین ایران
حسینیہ امام صادق علیہ السلام میں منعقدہ طرحی محفل مقاصدہ بسلسلہ جشن.میکاد صادقین علیہما السلام کے لئے لکھا گیا گیا طرحی کلام.....
ہستی کے گلستاں میں جو دم دیکھ رہے ہیں
سب آپ کے الطاف بہم دیکھ رہے ہیں
ہیں واسطہ در فیض حقیقت میں محمد
ہر ذرہ پہ یوں ان کا کرم دیکھ رہے ہیں
کرنی ہے انہیں ثبت جو تقدیر دو عالم
احمد کی طرف لوح و قلم دیکھ رہے ہیں
آدم ہیں در سید لولاک پہ خوش باش
جبریل کھڑے باغ ارم دیکھ رہے ہیں
عالم ہے سبھی کھوج میں جنت کی پہ عشاق
جنت کو ترا نقش قدم دیکھ رہے ہیں
مصباح کی مشکات و زجاجہ کی ہے تفسیر
اک شیشے میں دو نور بہم دیکھ رہے ہیں
دنیا کے مقر منکر سرکار یہ بد عقل
وجدان کو فقدان میں ضم دیکھ رہے ہیں
ق
اے امی لقب تیری فصاحت کے گلستان
حیرت سے عرب اور عجم دیکھ رہے ہیں
قرآن کے انداز میں حیدر کے بیاں میں
سب تیری بلاغت کا بھرم دیکھ رہے ہیں
یہ انفس آفاق حقیقت کی نگہ سے
جعفر میں محمد کا حشم دیکھ رہے ہیں
دریائے حوادث کے تھپڑے ہیں فراواں
یہ عشق محمد ہے جو کم دیکھ رہے ہیں
اے گردش دوراں نہ ستا جان لے اتنا
ہم.لوگ ابھی سوئے حرم.دیکھ رہے ہیں
آنکھوں سے رواں اشک ہیں خاموش زباں ہے
یعنی کہ.مجھے شاہ امم دیکھ رہے ہیں
ہر جلوۂ بے پردہ کے پردے میں وہ موجود
ہم اندھے ہیں غائب انہیں ہم دیکھ رہے ہیں
وہ کہتے ہیں اخلاص سے انجام دو اعمال
دنیا کی نہ پروا کرو ہم دیکھ رہے ہیں
دل کہتا ہے روضہ سے بقیعہ کو مسلسل
سرکار کئے چشم کو نم دیکھ رہے ہیں
صائب یہ عرق ریزی جعفر کا اثر ہے
کردار محمد جو علم دیکھ رہے ہیں
صائب جعفری
قم مقدس
۱۷ ربیع الاول ۱۴۴۳
*موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی قم* میں ہفتہ وحدت کے عنوان سے منعقدہ محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
برائے دین نبی کھل چکا تھا سرخ کفن
سرائے دہر میں ابلیسیت تھی خیمہ زن
تمام ہونے کو تھی لَو چراغ وحدت کی
خزاں کی نذر ہوا تھا شہادتوں کا چمن
نفاق و کفر سے سازش ہوئی تو کرنے لگی
ہوائے نفس بھی پیدا فضائے دیں میں گھٹن
دیارِ عشق میں حرص و ہوس کا موسم تھا
لگا ہوا تھا وفاوں کا آفتاب گہن
نوائے عشق پہ غالب تھے ساز ہائے طرب
لگائی شرک نے آواز حق پہ تھی قدغن
اٹھا پھر ایسے میں اک پیر مرد ابنِ بتول
نحیف زار بظاہر، تھا اصل میں آہن
لرزرہے تھے صنم خانہِ جہاں کے رکن
بتوں کے دیس میں اک بت شکن تھا جلوہ فگن
یہ جانتا تھا وہ توحید آشنا غازی
کہ کائنات ، درونِ بشر کو ہے درپن
وہ ماورائے طبیعت سے کھینچ لایا مدد
تھے شش جہاتِ جہاں جب بنے ہوئے دشمن
علی کے عشق میں مالک کی مثل ہر لحظہ
مثالِ آئینہ اعمال تھے برائے سخن
صد آفرین خمینی بفیض مصحفِ حق
شکست دے گئی ہر شیطنت کو تیری لگن
یہ سِر بھی کردیا عالم پہ روز سا روشن
علی کے نام سے ہوتی ہے سہل کیسے کھٹن
ترے تفکر حق سے جہاں ہوا بیدار
اسی سے سینہ باطل کی بڑھ رہی ہے گھٹن
ہر ایک دشمن حق سے مقابلے کے لئے
جہاں پسند ہوا ہے تمہارا چال چلن
ترا عمل سے مسلمان ہوگئے بیدار
ترے طفیل ہی راہ جہاد ہے روشن
بنایا وحدت امت کو تو نے اپنا شعار
کہ اب لباس پہ اسلام کے پڑے نہ شکن
یہ انقلاب ہے تیرے ہنر کا ایک نشاں
جنجھوڑ ڈالا ہے جس نے ہرایک خفتہ تن
صائب جعفری
قم المقدس
۲۱ اکتوبر ۲۰۲۱
بزم استعارہ کی اس ہفتہ کی نشست مورخہ Oct 01,2021 میں میر تقی میر کے مصرع پر فی البدیہہ کہے گئے اشعار
لفظوں کا اعتبار ہے حسن ادا کے ہاتھ
انسان کا وقار ہے حرف حیا کے ہاتھ
من کنت کی صدا پہ بصد شوق و ابتہاج
بیعت کو بڑھ رہے ہیں سبھی انبیا کے ہاتھ
طوفاں میں نام سید سجاد کے طفیل
کشتی ہماری کھینے لگے خود دعا کے ہاتھ
پیاسی تڑپ رہی تھی فرات آب کے لئے
غازی نے تشنگی کو.بجھایا لگا کے ہاتھ
چھت پر علم لگاتے ہیں ہم.لوگ اس لئے
سایہ فگن سروں پہ رہیں با وفا کے ہاتھ
صائب نہ بخشا جائے یہ ممکن کہاں جناب
*"ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ"*
پہلی اکتوبر ۲۰۲۱
قم ایران
قم مقدس میں عید زہرا کی.مناسبت سے منعقدہ محفل کے.لئے لکھا گیا طرحی کلام پیش خدمت ہے کچھ اضطراری وجوہات کی بنا پر محفل میں شریک نہیں ہو سکا تھا.
وادئ عشق علی میں گر ٹھکانہ چاہئے
تو جبیں ہر حال میں سجدے میں جانا چاہئے
شمع عشق حق کی لو کو تیز کرنے کے لئے
عاشقوں کو نفس کی خواہش جلانا چاہئے
.چھوڑ جاتے ہوں جو ہادی کو میان کارزار
ایسے لوگوں سے بھلا کیوں دل.لگانا چاہئے
سنت سفیانیت ہے گالیاں ہرزہ سرائی
کیا علی والوں کو بھی اس رہ پہ آنا چاہئے
ہم یقینا ہیں دعائے سیدہ، سو اب ہمیں
فاطمی تہذیب دنیا کو.سکھانا چاہئے
ماتم و گریہ کے ہمرہ مقتل و زنداں بھی ہیں
کربلا کی ساری رسموں کو.نبھانا چاہئے
ق
کربلا شام و یمن کہتے ہیں دعویدار عشق
آ ذرا میداں میں دعویٰ آزمانا چاہئے
عرصۂ اعمال میں یہ کلنا عباس ہی
ہے ثبوت عشق زینبیون مانا چاہئے
گر نہیں ہیں دشمن دیں آپ تو بتلائیے
کلنا عباس پر کیوں بلبلانا چاہئے
ق
ہو گیا ہے قلب مہدی آپ سے راضی تو.پھر
*آگئی ہے عید زہرا مسکرانا.چاہئے*
اور اگر ناراض ہے حجت خدا کی آپ سے
آپکو اشکوں کا اک دریا بہانا چاہئے
حق و باطل کی شناسائی کی خاطر صاحبو
اب نگہ سید علی سی عارفانہ چاہئے
ہے وفا کا یہ تقاضا طالبان علم دیں
جس کا کھاتے ہو اسی کا گن بھی گانا چاہئے
سن کہ یہ اشعار سب احباب ہیں اس فکر میں
کیا بھلا صائب کو آئندہ بلانا چاہئے
صائب جعفری
قم ایران
۱۶ اکتوبر ۲۰۲۱
قم مقدس میں کھرمنگ بلتستان کے طلاب کی ادبی انجمن کے زیر اہتمام طرحی منقبتی مشاعرہ میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر
*قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا*
فیضان کردگار ہے جلوہ غدیر کا
منشور کائنات ہے قصہ غدیر کا
میدان حشر حشر سے پہلے دکھا دیا
پاکر رسول حق نے اشارہ غدیر کا
آیات کی زبان میں جبریل جھوم کر
سب کو سنا رہے ہیں ترانہ غدیر کا
بلغ کی صوت ہے کبھی اکملت کی صدا
*"قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا"*
بہر علی غدیر میں حکم رسول پر
منبر بنا رہے ہیں صحابہ غدیر کا
کرب و بلا کے دشت میں شبیر کے طفیل
لکھا گیا ہے خوں سے صحیفہ غدیر کا
بعد نبی جہاں میں مسلماں نہ ہوتے خوار
اے کاش حفظ کرتے جو خطبہ غدیر کا
وسعت خدا ہی جانے علی کی حیات کی
صدیوں پہ تو ہے چھایا شبینہ غدیر کا
ایمان اور نفاق کو کرتی ہے یہ جدا
یہ بھی ہے اک عجیب سلیقہ غدیر کا
کیونکر وہ سوئے حضرت حق ہوگا گامزن
جو کاروں چنے گا نہ رستہ غدیر کا
میثم کی.طرح سولی مقدر ہے اس لئے
افکار پر ہمارے ہے سایہ غدیر کا
گرداب سے سقیفہ کے وہ لوگ بچ گئے
جن کو ہوا نصیب سفینہ غدیر کا
ہر ایک ورد کی مجھے لذت ہوئی نصیب
ورد زباں ہوا جو وظیفہ غدیر کا
وہ خواہشات دہر سے صائب ہے بے نیاز
جس کو میسر آئے خزانہ غدیر کا
صائب جعفری
۲۹ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران
حسینیہ امام صادق علیہ السلام قم اہران میں غدیر کی.طرحی محفل کے لئے لکھے اور پڑھے گئے اشعار احباب کی نذر
معراج ابتدائے کتاب غدیر ہے
عاشور اک ثبوت صواب غدیر ہے
نشاۃ ہے ثانی خم کی یہ عابد تا عسکری
صبح ظہور عین شباب غدیر ہے
مزمل اور طاھاویاسین کے لئے
*"یا ایھاالرسول خطاب غدیر ہے"*
ــــــــــــــــــــ
اے میرے بابا علی ہم یہ دھیان رکھتے ہیں
ترے عدو پہ تبرا کی ٹھان رکھتے ہیں
بنام سجدہ جبیں پر علی کے سب مجذوب
غدیر خم.کا سجائے نشان رکھتے ہیں
یہی ثبوت ہے کافی طہارت دل کا
کہ دل میں کعبہ کا دل میہمان رکھتے ہیں
برای زیست علی والے مرتضی.کی طرح
اک.امتحان پس از امتحان رکھتے ہیں
یہ اور بات کہ چپ سادھے ہیں پئے وحدت
یہ اور بات کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں
طلوع صبح ظہور اور حشر کی خاطر
*"ہم اپنے پاس غدیری اذان رکھتے ہیں"*
غلو کا فتوی لگا دیجئے مگر کہئے
شعور شعر بھی کچھ بھائی جان رکھتے ہیں
جناب طائر سدرہ پرندگان غدیر
ورائے سرحد سدرہ اڑان رکھتے ہیں
علی کی مدح کے طائر اڑان بھرنے کو
زمین شعر پر لا آسمان رکھتے ہیں
گہے غدیر پہنچ جاتے ہیں گہے کعبہ
ہم اختیار میں اپنے زمان رکھتے ہیں
ہوا کے دوش پہ رکھ دیتے ہیں بنام علی
چراغ جان کے لئے کب مچان رکھتے ہیں
صد آفرین یہ پیران ملک عشق و وفا
مئے غدیر سے دل کو جوان رکھتے ہیں
علی کے عشق کے صدقے ہم ایسے خانہ بدوش
اٹھائے گٹھری میں سارا جہان رکھتے ہیں
جہاں پہ بارہ.مہینے بہار رہتی ہے
غدیر جیساہم اک گلستان رکھتے ہیں
زمیندار کہاں کوئی ہم سا صائب ہم
ہر ایک بیت کے بدلے مکان رکھتے ہیں
۲۸ جولائی ۲۰۲۱
بزم استعارہ کی آج مورخہ ۲۲ جولائی ۲۰۲۱ کی شعری و تنقیدی نشست میں فی البدیہہ اشعار کہنے کے لئے مصرع طرح *زندگی وقف ہے برائے غدیر* دیا گیا اس پر جو اشعار مقررہ وقت میں موزوں ہوئے پیش خدمت ہیں
سر پہ بیٹھا ہے جب ہمائے غدیر
کیوں نہ دیوان ہو صدائے غدیر
خلد و.کوثر کی آبرو کے لئے
استعارہ بنی ہوائے غدیر
پیاس دیکھی مری تو رب.نے لکھی
میری قسمت میں آبنائے غدیر
بیچ دوں کائنات کے بدلے
اتنی سستی نہیں ولائے غدیر
مرحبا کہہ اٹھی شراب الست
جب ملے دل کو جام ہائے غدیر
یہ انا الحق کی جاں گداز غزل
عرش اعظم پہ گنگنائے غدیر
کربلا سے ملیں ہیں سانسیں تو
زندگی وقف ہے برائے غدیر
یہ بھی پہچان ہے ملنگوں کی
کچھ نہیں ان.کا اک سوائے غدیر
بس وہی دل ہے قلب قرآنی
جاگزیں جس میں ہے نوائے غدیر
سوچتا ہوں کہاں گذرتی رات
رہ میں ہوتی نہ گر سرائے غدیر
چور اچکوں سے ہوگیا محفوظ
دین حق اوڑھ کر ردائے غدیر
عقل کہتی ہے جان لیوا ہے
عشق کہتا ہے کر ثنائے غدیر
بہر وحدت سیئے ہوں لب لیکن
میرے جذبات گدگدائے غدیر
ہر خوشی ہے فدائے کرب و بلا
اور غم سب کے سب فدائے غدیر
اے خدا صائب حزیں کو.دکھا
دست مہدی میں اب لوائے غدیر
صائب جعفری
۲۲ جولائی ۲۰۲۱
نوٹ: مقطع سے پہلے کے تین اشعار مقررہ وقت کے بعد کے ہیں جو.محفل سے گھر آکر لکھے
انجمن ادبی اقبال لاہوری کی جانب سے پندرہ روزہ طرحی شعری نشست بعنوان "مشق سخن" محترم احمد شہریار صاحب کی زیر سرپرستی قم ایران میں منعقد ہوتی ہے اس بار مصرع طرح: "تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں" تھا جس.پر خاکسار نے بھی کچھ اشعار موزوں کئے وہ احباب کی.نذر کرتا ہوں.
دنیا سمجھ رہی ہے کہ دھوکا ملا ہمیں
صد شکر کہ حسین.کا سودا ملا ہمیں
ڈوبے ہیں انبساط کی چاہت میں زر پرست
اور ہم.ہیں خوش حسین پہ رونا ملا ہمیں
آسان منزلیں ہوئیں غیب و شہود کی
نام علی سے جونہی سہارا ملا ہمیں
اخلاص کی مثال جو ہم.ڈھونڈنے چلے
تو فاطمہ کے لعل کا سجدہ ملا ہمیں
علم و عمل کے سائے میں عرفان کردگار
کرب و بلا کے دشت میں.یکجا ملا ہمیں
بیچا ہے عشق شاہ کے بدلے میں.نفس کو
بس اس معاملے.میں نہ گھاٹا ملا ہمیں
پیاسے بھٹک رہے تھے سرابوں کے درمیاں
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"
خون حسین نے کیا سیراب اس طرح
پھر کربلا میں کوئی نہ پیاسا ملا ہمیں
مانگی بہار خلد تو از جانب خدا
عباس کے علم کا پھریرا ملا ہمیں
رومال فاطمہ کی ہیں زینت ہمارے اشک
کیسا گراں.بہا یہ اثاثہ ملا ہمیں
غازی کو آتا دیکھ کے کہنے لگے عدو
کاندھوں اپنے اپنا جنازہ ملا ہمیں
دنیا کے درد و غم سے رہائی کے واسطے
لبیک یاحسین وظیفہ ملا ہمیں
فرش عزا پہ آؤ تو خود جان جاؤ گے
کیسے خدا کی خلد کا رستہ ملا ہمیں
اللہ نبی علی و جناں حریت وفا
اک کربلا سے دیکھئے کیا کیا ملا ہمیں
دل کو طواف حج کی سعادت بھی مل گئی
جب نقش پا میں آپ کے کعبہ ملا ہمیں
صائب فقط فرات کا ساحل ہے وہ جہاں
شمس و قمر کا نور اکھٹا ملا ہمیں
صائب جعفری
۱۸ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران
جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار
مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے
عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون
خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون
خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون
آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون
تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون
بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون
حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون
راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون
ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون
جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون
۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران
۱. رقیب کرکے مدارات خوش نہیں ہونگے
برے ہوں اچھے ہوں حالات خوش نہیں ہونگے
۲. مرے بغیر تو خوش ہیں تمام لوگ مگر
مجھے خبر ہے مرے ساتھ خوش نہیں ہونگے
۳. بتا دے کون سا اعزاز مرے پاس نہیں
مگر یہ لوگ مرے ہاتھ خوش نہیں ہونگے
۴. میں ہاتھ لگ گیا ان کے تو شوق کی خاطر
نکال لیں گے وہ جذبات خوش نہیں ہونگے
۵.بہت سے جھوم اٹھیں گے ہماری غزلوں پر
مگر یہ ذات کے بد ذات خوش نہیں ہونگے
۶.یہ ہند فطرت و قصاب طینت اے وائے
کلیجہ کھائیں گے دن رات، خوش نہیں ہونگے
۷. اناڑیوں کا بنا ہوں حریف جانتا ہوں
یہ مات کھائیں یا دیں مات خوش نہیں ہونگے
۸.رہے یہ دل کی جو دل میں بہت ہی اچھا ہے
کہ آپ کرکے ملاقات خوش نہیں ہونگے
۹.بہار رت سے ہیں نالاں مرے چمن کے گلاب
بلا کی برسی جو برسات خوش نہیں ہونگے
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس
بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل
ایسا ہوا تھا اک بار احساس
میرا نہیں تجھ کو یار احساس
میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہے
زر کے جہاں میں بے کار احساس
تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیں
عزت، محبت، اشعار، احساس
پھر آج جیسا شاید نہ ہوگا
حساسیت سے دوچار احساس
آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیں
ہے ذہن پر تیرے بار احساس
لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہے
کرنے لگے اب اغیار احساس
کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکن
ذرہ نہیں کرتا خار احساس
سجدہ بہر صورت لازمی ہے
گرچہ نہیں اب دیں دار احساس
پینا نہیں تو بھرتے ہیں کیوں جام
کرتے نہیں کچھ مے خوار احساس
اس وقت تک مٹ جاتا ہے سب کچھ
ڈستا ہے بن کر جب مار احساس
بولی لگاؤ کوئی کھری سی
میں بیچتا ہوں بیدار احساس
اچھی ہیں سب کی فن کاریاں پر
صائب ہے تیرا شہکار احساس
صائب جعفری
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس
مورخہ تین فروری ۲۰۲۱ کو برادر ہادی ولایتی کی رہائش گاہ پر ایک طرحی محفل سننے کے لئے پہنچا تو برادر عزیز مصر ہوگئے کہ آپ کو کلام پڑھنا ہے مصرع طرح قائم امروہوی صاحب کی.منقبت سے لیا گیا تھا سو کوئی ۵ سے ۷ منٹ میں یہ ۵ شعر موزوں ہوئے اور یہی پڑھ دیئے شاید ان کو فی البدیہہ کہہ سکتے ہیں
چاہئے بس مرضی معبود اکبر فاطمہ
لکھ رہا ہوں منقبت تیری برابر فاطمہ
انعکاس قوت خالق علی کی ذات ہے
عفت و عصمت کے آئینے کا جوہر فاطمہ
ہیں ترے دریوزہ گر کروبیاں ارض و سما
یعنی تو بھی ہے غنا میں رب کا مظہر فاطمہ
لحن.خالق میں قصیدہ آپ کا کہتے ہوئے
آیتیں اتریں ہیں اکثر آپ کے گھر فاطمہ
آپ کا صائب شفاعت اور شفا کے واسطے
اٹھ کے جائے آپ کے در سے کہاں پر فاطمہ
۳ فروری ۲۰۲۱
محترم شاعر اختر کلیم صاحب کے دولت کدے پر منعقدہ طرحی محفل منقبت میں پیش کیا گیا کلام
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں خواہر مولا رضا
فاطمہ کا آئینہ ہیں خواہر مولا رضا
باغ ہستی میں شمیم عفت و عصمت ہیں آپ
مثل زینب باخدا ہیں خواہر مولا رضا
خود کو کہتے ہیں بقیّع کا مجاور شان سے
جو ترے در کے گدا ہیں خواہر مولا رضا
قم حرم ہے اہل بیت مصطفیٰ کے واسطے
اور قم کی مالکہ ہیں خواہر مولا رضا
جو شہیدان وفا نے راہ الفت میں جلائے
ان چراغوں کی ضیا ہیں خواہر مولا رضا
گر سمجھ آئے تو کافی ہے فضیلت کے لئے
خواہر مولا رضا ہیں خواہر مولا رضا
حرف تک محدود نئیں ان کی عطا کا سلسلہ
حامل رمز عطا ہیں خواہر مولا رضا
ہم نشیں مایوس کیوں ہے کیا نہیں تجھ کو خبر
افتخار ہل اتیٰ ہیں خواہر مولا رضا
جن پہ حجت کبریا کی ہو رہی ہو خود فدا
فاطمہ زہرا ہیں یا ہیں خواہر مولا رضا
اوّل ذیقعد سے بہر تشیّع تا ابد
برکتوں کا سلسلہ ہیں خواہر مولا رضا
کیوں نہ ہو مقبول درگاہ خدا وندی میں جب
خود دعا کا مدّعا ہیں خوہر مولا رضا
پاک تقصیر و غلو سے ہے فقط وہ طائفہ
جس کی برحق رہنما ہیں خواہر مولا رضا
خامنہ ای اور خمینی سے کھلا یہ دہر پر
کس قدر معجز نما ہیں خواہر مولا رضا
پوچھتے ہیں لوگ کس بوتے پہ ہے اتنی اکڑ
سر اٹھا کھل کر بتا ہیں خواہر مولا رضا
سر قدم کرکے ذرا چلئے تو خود کھل جائے گا
وصل حق کا راستہ ہیں خواہر مولا رضا
کیوں نہ چومے گی قدم منزل مرے خود آن کر
جب کہ میری ناخدا ہیں خواہر مولا رضا
عقل ہے دنگ اور دل حیرت میں، صائب حق یہ ہے
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں خواہر مولا رضا
۱۲ جون ۲۰۲۱
اول ذیقعد ۱۴۴۲
محترم رضوان نقوی صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ محفل میلاد امام رضا کے سلسلے میں لکھی گئی طرحی منقبت
اگرچہ روح مکدر بہ دہر مائل ہے
مگر کہاں تیری جود و سخا سے غافل ہے
خلاصی شرک و غلو سے اسی کو حاصل ہے
جو قول و فعل پہ مولا رضا کے عامل ہے
جسے تمازت عشق رضا نصیب ہوئی
وہی وصال جمال خدا کے قابل ہے
عجیب مرحلہ فکر ہے عزیزوں یہ
غریب طوس کا سارا جہان سائل ہے
جناں سے دی مجھے رخصت یہ کہہ کے رضواں نے
زمیں پہ جاو کہ مشہد تمہاری منزل ہے
یہ جوف خانہ کعبہ ہے جیسے ناف زمیں
یہ ارض طوس بھی یوں کائنات کا دل ہے
رضا کے نام پہ.لنگر اٹھا تو بولی ہوا
بھنور بھی آج سفینہ کو تیرے ساحل ہے
اسی کا نام مشیت نے رکھ دیا ہے رضا
بشر میں اور خدا میں جو حد فاصل ہے
یہ فیصلہ تو بروز الست ہو ہی چکا
جو آپ تک.نہیں لائے وہ راہ باطل ہے
جو ان کے در پہ پہنچ جاؤ تو یہ یاد رہے
سخاوتوں کا سمندر امام عادل ہے
تمہارے نقش کف پا پہ سجدہ بہر جبیں
ربوبیت کا رخ بندگی پہ اک تل ہے
تمہارے در پہ ہے جاروب کش وہی انساں
جو راز عشق خدا اور نبی کا حامل ہے
نہ ڈھول تھاپ سے رغبت نہ کچھ نشہ سے غرض
گدا تمہارا حقیقت میں پیر کامل ہے
کجا یہ محفل انوار اور کجا صائب
مگر تمہارا کرم ہے جو جان محفل ہے
تمہارے عشق کی تاثیر سوا نہیں کچھ
جو شعر پڑھنے کے قابل.ہوا یہ جاہل ہے
۱۰ذیعقد ۱۴۴۲ھ
۲۱ جون ۲۰۲۱ء
بروز پیر
رات ۳:۳۵
کراچی
1. اگر کرب و بلا کی معرفت تقدیر ہوجائے
ہر اک غم کے لئے اشک عزا اکسیر ہوجائے
2. اگر اخلاص ہو تجھ میں تو اے شبیر کے شاعر
قلم شمشیر بن جائے قلم شمشیر ہوجائے
شہداء کے جنازوں کے ہمراہ احتجاج کرنے والوں کو بلیک میلر کہے جانے پر فی البدیہ کہی گئی نظم
مدینہ
اب بھی کیا نہیں سمجھے
یہ مدینہ ہے بھائی...
عزاداروں سے خطاب
(بشکل مثنوی)
سرخئِ خون شفق نے یہ افق پر لکھ دیا
اے زہے قسمت کہ پھر درپیش ہے شہ کی عزا
کیا آخری برس یہ دنیا کا اے خدا ہے
یہ سال کیسے کیسے شہکار کھا گیا ہے
عید غدیر خم تمام مسلمانوں کو مبارک ہو
شب گذشتہ قم میں کی ایک محفل کے لئے لکھی اور پڑھی گئی طرحی منقبت بمناسبت عید غدیر خم
مئے عشق کے خم لنڈھائے گئے ہیں
بہاروں کے نغمے سنائے گئے ہیں
علی کی ولایت کا اعلان کرکے
مرثیہ
تحقیق و تدوین: سید صائب جعفری
مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی موت یا شہادت پر اس کے اوصاف بیان کر کے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔ اردو میں مرثیہ کا لفظ میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ اور ان کے دیگر رفقا کی شہادت کے بیان سے مخصوص ہو گیا ہے۔ دیگر لوگوں کی موت پر کہے جانے والے مرثیوں کو شخصی مرثیہ یا تعزیتی نظم کہا جاتا ہے۔
مرثیہ کے اجزائے ترکیبی
قصیدہ
در ہجو بعضی از مار ہای آستین
بے مایہ وتوقیر ہیں یہ خر مرے آگے
در اصل ہیں خنزیر کا گوبر مرے آگے
میانِ آدم و ابلیس جو ازل سے چھڑا
وہ معرکہ ہے ابھی تک زمیں پر برپا
ہر ایک دور میں حق والے جان دیتے رہے
ہر ایک دور میں حق خوں سے سرخرو ٹھہرا
ڈٹے رہے سر میدانِ حق نبی لیکن
یہ جنگ پہنچی سرِ کربلا تو راز کھلا
نشانِ ہمت و صبر و رضا ہے نام حسین
مقاومت کا ہے مظہر زمینِ کرب و بلا
زمینِ کرب و بلا ہے، زمین عالم کی
ہر ایک روز ہے مانند روزِ عاشورا
- نوحہ
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
تابہ فلک گونج اٹھی روح الامیں کی صدا
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
زینب و کلثوم نے پھینک دی سر سے ردا
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
:
*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*
مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*
کراچی میں اردو کے کئی ایک.لہجے ہیں انہی میں سے ایک.لہجے میں منقبت کے اشعار پیش خدمت ہیں
نعلت کی رسی اس کی گردن میں ڈال دی ہِے
یونہی تو ماویہ سے صلحا نہیں کری ہِے
لگتا ہے ماویہ کی مَییَا مری پڑی ہِے
بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
حقیقت ایک ہے وہ تو ہے باقی افسانہ
خیال و خواب کی دنیا سے کیا شغف ان کو
انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا
قطعات
ایک صاحب ہیں شدید احساس کمتری کے مارے ہوئے جنہوں نے تقمص کرکے زبردستی سفید پگڑی باندھ لی ہے اور عبا قبا پہنے گھومتے ہیں اور اگر ان کے نام ساتھ آپ علامہ مولانا حجت الاسلام وغیرہ جیسے الفاظ نہ لکھیں تو برا مان جاتے ہیں تو ان کے نام...
*تو مجھ کو یہ بتاتا ہے ترے اجداد کیسے تھے؟*
*تو سن لے: ہیں محمد صاحب قرآں مرے نانا*
*میں پوتا ہوں امام جعفر صادق کا سو صائب*
*نہیں خواہش کوئی لکھے مجھے علامہ مولانا*
.....
*خودساختہ عقائد کے حاملین کے نام*
*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت*
*تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*
*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر*
*جسے سید علی کھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*
صائب
جاری ہے.........
خود انما ولیکم اس پر گواہ ہے
بس مرتضی ہیں بعد خدا و نبی ولی
پڑھ لو کہ کہہ رہی ہیں معارج کی آیتیں
فاروقیو! خلیفہ بلا فصل ہے علی
ـــ صائب جعفری ــــ
*تمہیں ذکر شام غریباں کے بدلے*
*بہشت بریں میں ہو بیٹھک مبارک*
*ولا آل احمد کی لے کر.چلے ہو*
*شہادت تمہیں ہو مبارک.مبارک*
سید مبارک حسنین زیدی مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے فاتحہ مع الاخلاص و الصلوات
مدافعین حرم کے نام.....
نجد اور دیر و کلیسا کو تمہاری تکبیر
زیر و رو کرنے لگی رونے لگے شام.کے پیر
مرحبا تم.پہ کہ اب ہے یہ.تمہاری توقیر
پاسباناں حرم تم.پہ سلام شبیر
تم نے اصحاب حسینی میں قدم رکھا ہے
تم نے عباس کے.بازو کا بھرم رکھا ہے
خون سے سوئے ضمیروں کو جگایا تم نے
عشق کے راز سے پردہ بھی ہٹایا تم.نے
قول کو اپنے عمل سے ہے نبھایا تم نے
کیا ہے "یا لیتنی" دنیا کو.بتایا تم نے
اللہ اللہ غضب کی یہ بصیرت پائی
تم نے عباس کے مقصد پہ شہادت پائی
#کلنا_عباسک_یازینب
سر معراج کی ہیں آگاہی
اک غدیر اور دوسری زہرا
*مت پھول اکڑ مغرور نہ ہو اوقات میں رہ اپنی پیارے*
*مارے گی اجل لاٹھی اک دن کھل جائیں گے یہ کس بل سارے*
*سر،تال ،تھرک، سنگیت لئے گلیوں گلیوں چلانا چھوڑ*
*لے ڈوبےگی تجھ کو یہ سستی شہرت کی خواہش بنجارے*
*ہے خاک سے اٹھا تیرا خمیر اک بے وقعت سا قطرہ تو*
*مل جائے گا مٹی میں جلدی تو نفس کی حسرت کے مارے*
*صائب جعفری*
طرحی مصرع: ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے
ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہے
کعبہ منا اور مروہ صفا سب کچھ ورثہ سجاد کا ہے
محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی
صنعت رد العجز علیٰ الصدر
جو لبِ صبا پہ آیا نئی صبح کا فسانہ
نئی صبح کا فسانہ با نوائے عاشقانہ
با نوائے عاشقانہ جسے گا رہا ہے بلبل
جسے گا رہا ہے بلبل ہے بہار کا ترانہ
ہے بہار کا ترانہ، جو نسیم نغمہ خواں ہے
جو نسیم نغمہ خواں ہے با سرودِ مخفیانہ
طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے
فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے
تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے
تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے
فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے
"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"
خام ہیں قلب و نظر خام ہیں افکار ابھی
جذبہِ عشق کو اک آنچ ہے درکار ابھی
میں سرِ دار اناالحق کی صدا دیتا ہوں
عشق کا سودا مرے سر پہ ہے اسوار ابھی
غزل
بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
غزل
گر خدا وند کو خدا کرلیں
زندگی موت سے جدا کرلیں
زندہ لاشیں سمجھ نہ پائیں گی
چلئے مردوں سے کچھ گلا کر لیں
غیر کے ساتھ بات دور کی ہے
کاش ہم خود سے ہی وفا کر لیں
دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں
ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں
حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز
بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں
یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے
آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں
چل دئیے کیوں رات آدھی چھوڑ کر
صیقل جذبات آدھی چھوڑ کر
موت کی آغوش میں ہم سوگئے
درد کی بارات آدھی چھوڑکر
اگر دل میں بسا تیرے خدا ہے
تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے
مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے
کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے
خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے
تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے
قلب میں اترا ہوا عشق علی گر ہوگا
دل سے پھر اترا ہوا دنیا کا سب زر ہوگا
عید کی خوشیاں منائے گا وہی پڑھ کے درود
مثل قنبر جو یہاں بندہ حیدر ہوگا
غزل
بہت دیر خود کو رلانا پڑا
یونہی جب کبھی مسکرانا پڑا
تری آرزووں کی تکمیل کو
بس آپ اپنا ہم کو مٹانا پڑا
پڑھتا ہے قصیدہ یوں قرآن خدیجہ کا
اللہ قَدَر داں ہے ہر آن خدیجہ کا
آیاتِ الٰہی کی تنزیل کو خالق نے
چن رکھا تھا اوّل سے دالان خدیجہ کا
علی کے جو نہیں شیدا تبرا ان پہ کرتے ہیں
جو شیطانوں کے ہیں آقا تبرا ان پہ کرتے ہیں
وہ جن پر مارنا پتھر ہے فرضِ حج ،ہے اسرائیل
اور انگلستان و امریکہ، تبرا ان پہ کرتے ہیں
منقبت مزاح
کچھ گلوں کی ثنا کی بھی ہو جائے
یوں معطر ہوا بھی ہو جائے
کچھ تولا کی بات کیجے کہ یوں
اہلِ حق کی ثناء بھی ہو جائے
غزل
گوشوارے چھٹ کے جب بالی ہوئے
غیر کیا اپنے بھی کب والی ہوئے
جام، جھولی، کاسہ، دامن، جیب، ہاتھ
خالی دل بھر آنے کو خالی ہوئے
منقبت
ہر نفس بس یہ کیا ہے با صفا سجاد نے
نقش عبد اللہ کو روشن کیا سجاد نے
بے نواوں کو عطا کرکے دعاوں کی نوا
ہم سخن بندوں کو خالق سے کیا سجاد نے
نوحہ/حکایت
میں نے بابا سے کہا کیجے حکایت بابا
عہدِ رفتہ کسی بچے کا کہئے قصہ
بولے بابا کہ ہے یہ ذکر بہت پہلے کا
ایک بچہ تھا جو خیمے میں تھا گریاں پیاسا
منقبت
جو چل رہا سلیقے سے کاروبار تمام
ہے کائنات کا مولا پہ انحصار تمام
ثناء علی کی بیاں کر نہیں سکے گا کبھی
نہ لے جو مدح کو قرآن مستعار تمام
نوحہ
نوحہ خواں فرشِ زمیں گریہ کناں تھا آسماں
پڑھ رہی تھیں انا للہ قید میں سب بیبیاں
فاطمہ زہرا کی پوتی شام کے زندان میں
سو گئی ہے گھڑکیاں سن سن کے کھا کر سیلیاں
منقبت
در وفا پر کھڑا ہوں دل میں بسائے مولا رضا کی خوشبو
ہوں منتظر جسم و جاں پہ برسے سخائے مولا رضا کی خوشبو
یہ آرزو ہے کہ معجزہ یہ دکھائے مولا رضا کی خوشبو
نصیب چشمِ شعور ہو نقشِ پائے مولا رضا کی خوشبو
منقبت
اوہام سے حیات کا دامن چھڑا کے دیکھ
الزام عشق شہ کا ذرا تو اٹھا کے دیکھ
تجھ پر کھلے گا عشق کے معنی ہیں کربلا
پردے ہوائے نفس کے اک دن ہٹا کے دیکھ
۱۰۹۔ منقبت
نام فردوس پہ کندہ ہے ابوطالب کا
بزمِ لاہوت میں چرچا ہے ابو طالب کا
تم سمجھتے ہو بھتیجا ہے ابو طالب
یہ محمد تو عقیدہ ہے ابو طالب کا
منقبت
عدوئے آل سے بڑھ کر کوئی ابتر نہیں ملتا
ہے قرآں حفظ لیکن معنئِ کوثر نہیں ملتا
محبت آلِ احمد کی اگر واجب نہیں واعظ
فقط پڑھ لینے سے کلمہ سکوں کیوں کر نہیں ملتا
منقبت
گذرے پت جھڑ کے زمانے آ گیا سرور کا پھول
قدسیوں کے ہیں ترانے آگیا سرور کا پھول
وجد میں آئی صبا ڈھلنے لگے نغمے نئے
دل لگا خود گنگنانے آ گیا سرور کا پھول
نعت
اسی کو زیبا ہے یہ دعوئے ولائے رسول
جو ہو بلال کی صورت سے آشنائے رسول
علی سا بھائی ہو جس کا بتول سی دختر
نہیں ہے کون و مکاں میں کوئی سوائے رسول
منقبت
لکھ رہا ہوں میں جو ثنائے بتول
مجھ کو غلام اپنا بنائے بتول
بن گیا ہوں میں جو گدائے بتول
ہے یہ بہت خاص عطائے بتول
۔منقبت
جمالِ روئے تاباں کی زیارت کی تمنا ہے
قدم بوسئِ تصویرِ نبوت کی تمنا ہے
نظر کے سامنے درکار ہے قبلہ مودت کا
نمازِ عشق کے سجدوں کو رفعت کی تمنا ہے
منقبتی غزل
زمانہ چھوڑ کے اب دل فگار آیا ہے
ترے حضور یہ سجدہ گذار آیا ہے
وصال کی جو تمنا تھی اس تمنا پر
شبِ فراق کی منزل گذار آیا ہے
سلام
دریا کی روانی پر خوں ناب قضا روئی
پیاسوں کی کہانی پر خوں ناب قضا روئی
اٹھارویں منت بھی بڑھنے نہیں پائی تھی
اکبر کی جوانی پر خوں ناب قضا روئی
منقبت
ننگِ انسانیت کو ردا مل گئی
چاک داماں کو زرّیں قبا مل گئی
پھر سے آئیں وفا کا مرتب ہوا
عشق کے آئینوں کو جلا مل گئی
۔منقبت
آپ سے ہے آشکارا یا امامِ عسکری
عشقِ ربانی کا دھارا یا امامِ عسکری
لفظ بے شک ہیں جدا گانہ جدا معنی نہیں
چرخِ حکمت کا ستارہ یا امامِ عسکری
منقبت
اگر آل محمد سے محبت ہو نہیں سکتی
تو پھر فکر و عمل کی بھی طہارت ہو نہیں سکتی
جبیں سجدے کرے لاکھوں کسی کے آستانے پر
نہ جھک پائے اگر دل تو عقیدت ہو نہیں سکتی
منقبت
التجاء آپ سے میری ہے بس اتنی اے بی بی
دیجئے رنج و مصائب سے خلاصی بی بی
بہرِ شبیر ہر اک طوقِ گلو گیر ہٹے
نفس کی قید سے مل جائے رہائی بی بی
منقبت
ہے چوکھٹ سے رواں دریائے عرفانِ خدا بی بی
مثالِ مرقدِ زہرا ہے مرقد آپ کا بی بی
سخاوت کا جہاں بھر میں ہے جاری سلسلہ بی بی
کرم سے آپ کے ہیں فیض یاب ارض و سما بی بی
- منقبت
نکہت ہے جذبِ عشق کی قرطاس کی مہک
پیدا ہے لفظ لفظ سے احساس کی مہک
بحرِ ثنا میں رستہ بنانے لگا قلم
فکر و شعور پا گئے الیاس کی مہک
- منقبت
اصیل اصلِ انما ضمیر کربلا حسین
جلیلِ سرِّ ہل اتیٰ عبیر کربلا حسین
دلیلِ رمز لا الہ، صفیر کربلا حسین
غسیل نورِ کبریا، منیر کربلا حسین
سلام
اس طرح کب باغ کوئی بھی لٹا ہائے حسین
جس طرح تیرے چمن کے پھول کملائے حسین
زینب و سجاد کا گریہ تھما کب عمر بھر
خشک چشمِ غم سے آنسو خوں کے برسائے حسین
منقبت
وائے حسرت کہ نہیں ذوقِ عقیدت کامل
ورنہ وہ آج بھی ہیں لطف و کرم پر مائل
ہر نَفَسْ الجھا ہوا نَفْسْ کے جنجال میں ہے
حد مگر یہ ہے نظر آتا نہیں کوئی خجل
منقبت
نہالِ دل نے مہکائے بجائے خود ثناء کے پھول
مئے الفت نے رنگیں کر دئیے عشق و ولا کے پھول
فلک نازاں زمیں ساداں فضائیں گل فشاں ہیں آج
مہکتے ہیں چمن میں صنعتِ رب علا کے پھول
کوفہ میں شور کیسا یہ پروردگار ہے
اٹھا خدا کے گھر سے غموں کا غبار ہے
غم کی فضا زمانے پہ کیسی سوار ہے
ہے خوں چکاں شفق تو زمیں سوگوار ہے
دوڑو نمازیوں کہ ہوئے قتل مرتضیٰ
۔منقبت
ایسا کچھ سلسلہ بھی ہوجائے
بے نواء لب کشا بھی ہو جائے
سہل یہ راستہ بھی ہو جائے
گر دعا مدعا بھی ہوجائے
شعر وہ ہے جہاں خیال کے ساتھ
شامل ان کی رضا بھی ہو جائے
منقبت
جو بھی کرے گا دل سے اطاعت حسین کی
اس کو نصیب ہوگی زیارت حسین کی
وہ بڑھ کے کاٹ دی گی ہر اک شیطنت کا ہاتھ
جس قوم پر بھی ہو گی نظارت حسین کی
ہے دوست یار شیخ و امیہ کی آل کا
جو معتقد نہیں ہے علی کے کمال کا
مدحِ علی نہ لکھے تو جائے گا بھاڑ میں
شاعر جنوب کا ہو کہ شاعر شمال کا
کچھ ہم پہ نہیں موقوف ثنا ہر ذرہ ہے گویا مدحت میں
خوشبوئے ولائے آلِ نبی شامل ہے گلوں کی نکہت میں
پرکیف فضائے دہر ہوئی ہے وجد میں کوثر جنت میں
جوبن پہ ہے فطرت کی دلہن خلقت ہے ڈوبی رحمت میں
منقبت
پا گئی ذائقہِ حق جو زباں مشہد میں
فکر بالیدہ ہوئی حرف جواں مشہد میں
ہستئِ کفر ہوئی ایسے دھواں مشہد میں
عقل حیراں ہے جنوں رقص کناں مشہد میں
نعت
ہر خوشی آپ کے خیال سے ہے
منفعل کب یہ ماہ و سال سے ہے
اعتبارِ جہانِ رنگ و بو
مرتبط شاہِ خوش خصال سے ہے
منقبت
جو نقش پہ حیدر کے چلتا نظر آتا ہے
انساں وہ فرشتوں سے بالا نظر آتا ہے
کعبہ سے جو لپٹا ہے حیدر کی عداوت میں
ساحل پہ کھڑا ہوکر پیاسا نظر آتا ہے
اوّل ہے جو خلقت میں افضل ہے جو خلقت سے
کچھ عقل کے اندھوں کو چوتھا نظر آتا ہے
منقبت
ہے راستہ خدا سے یہی اتصال کا
تابع عمل ہو عشقِ علی کے خیال کا
انسان قدسیوں سے سوا پا گیا کمال
قطرہ پیا جو عشق کے آبِ زلال کا
منقبت
خدا کے گھر سے اٹھا ہے خمار حیدر کا
ہوا حرم کو رواں مے گسار حیدر کا
خزاں کو راہی ملکِ عدم بنانے کو
سنارہی ہے قصیدہ بہار حیدر کا
نوحہ
بہارِ باغِ رسول مقتل میں شاہِ دیں یوں لٹا رہے ہیں
حسین دل کے لہو سے اپنے زمینِ مقتل سجا رہے ہیں
گری ہیں غش کھا کے در پہ زینب اٹھے ہیں سجاد غش سے یکدم
صدائے ہل من کو سن کے اصغر زمیں پہ خود کو گرا رہے ہیں
نوحہ
چل گیا شبیر کی گردن پہ خنجر کیا ستم ہے
اہلِ بیتِ پاک پر ٹوٹا عجب کوہِ الم ہے
لاش اکبر کی اٹھائیں کس طرح سبطِ پیمبر
نور آنکھوں سے گیا ہے اور پشتِ شاہ خم ہے
یہ زبانِ بے زبانی سے علی اصغر پکارے
تیر کھا کر مسکرانا کیا درِ خیبر سے کم ہے
ہائے غربت دیکھئے شبیر کی ہنگامِ رخصت
نے علم داِرِ جری نے فوج ہے اور نے علم ہے
ہےگلوئے خشک اور خنجر ہے شمر بد گہر کا
کر نہ سر تن سے جدا یہ دے رہی زہرا قسم ہے
سر سرِ نیزہ ہے جسمِ نازنیں ریگِ تپاں پر
دیکھ کر منظر لہو روئی علی کی چشمِ نم ہے
خوں بھرا کرتا لئے تا ریکئِ شب میں سکینہ
ڈھونڈتی پھرتی ہے کس جا سینہِ شاہِ امم ہے
مصطفی کی بیٹیوں کو جانے کیوں عرصہ لگا تھا
فاصلہ بازار سے دربار کا گو کچھ قدم ہے
لوٹ سکتے ہی نہیں جس کو جہاں والے اے صاَئب
ایسی دولت ایسا سرمایہ فقط سرور کا غم ہے
۱ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ
نوحہ
جاگو عباس میرے یارِ وفا دار اٹھو
مجھ کو تنہا نہ کرو میرے علمدار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کے مینار اٹھو
میرے عباس اے دلدار اے کرار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کےمینار اٹھو
تیرے آنے کی لگائے ہوئے امید و آس
خون میں تر بتر ہوگئی کربلا
بعدِ عباس کیسا ستم یہ ہوا
کٹ گئے نہر پر شانے عباس کے
بچے پیاسے رہے کوزے خالی رہے
سرپٹکتی رہی کرب سے کربلا
رقم جو زیست کے صفحہ پہ نام حیدر ہے
تو خلد بھی ہے مری میرا حوضِ کوثر ہے
جو خود میں ڈوبنے والوں کو بخشتا ہے حیات
ولائے حیدرِ کرار وہ سمندر ہے
تقاضہ ہوگیا پورا بصارت کا بصیرت سے
نبوت ہوگئی سرشار دیدارِ امامت سے
اتارا مہبطِ عصمت پہ رب نے سورہِ کوثر
بھری آغوشِ زہرا رب نے قرآں کی عبارت سے
کر نہ پائے سورما جو خنجر و شمشیر سے
کام ابن مرتضیٰ نے وہ لیا تحریر سے
برّشِ شمشیر نے قرطاس سے کھائی شکست
تاج ششدر رہ گیا یوں کِلک کے شہتیر سے
نگاہ و دل کی سازش ہے خدا کی مہربانی ہے
سرِ قرطاس خونِ دل کی یہ شعلہ بیانی ہے
وہ جس کے کِلک سے شمشیرِ برّاں پانی پانی ہے
دیارِ تیغ سب اس کے قلم کی راج دھانی ہے
رہ گیا عشق جو ناکام تمنا بن کر
رہ گئی نوعِ بشر ایک تماشہ بن کر
شاہ بن کر وہ ملا ہو یا گدا سا بن کر
مجھ سے ہر بار ملا ہے وہ پرایا بن کر
نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے
مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے
میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر
کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے
حصارِ نور ہے امن و اماں کا سایہ ہے
حسن کا نام ہے اسلام جس سے زندہ ہے
نماز عشق کے سجدوں میں دل ہوا مشغول
نگہ کے سامنے اس وقت میری کعبہ ہے
درشہوار حسین
صف با صف آج کھڑے ہیں سبھی حبدارِ حسین
بہرِ تقدیم چلے آئے ہیں انصارِ حسین
فرشِ خاکی سے سوئے عرش چلا اوڑھے کفن
لی گئی سوئے خدا خواہشِ دیدارِ حسین
گیا حیات کو اس طرح سرخرو کرکے
تحریر : صائب جعفری
۱۱ فروری ۲۰۱۴
زندگی خوشیوں اور غموں کے مجموعه کا نام ہے اور یہ مجموعہ معاشرتی میل ملاپ اور لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور گفتار و رفتار سے ترتیب پاتا ہے. خدا نے انسان کو اس نہج پر خلق کیا ہےکہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا. فطرتاً و ضرورتاً انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے کبھی اپنے غم غلط کرنے کے لئے تو کبھی اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے. ہر انسان کی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں جن کے طفیل زندگی میں میلا لگا رہتا ہے اسی ہجوم دوستاں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ گو آپ کی ان سے ملاقات انتہائی کم.ہوتی ہے
سید رضا ہاشمی کی فارسی تحریر کا اردو ترجمہ
مترجم صائب جعفری
اپریل ۲۰۱۹
بنام خدائے رحمان و رحیم
#عرفان، ایک شادی شدہ مرد ہے جو اچانک ایک معشقہ میں گرفتار ہوجاتا ہے، اس کو ہدف کے حصول میں بہت سےواقعات پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔
فلسفہ نزول بلاء
) بالخصوص ابتلائے صالحین
تحقیق: صائب جعفری
امتحانات الہی اور نزول بلا ایک مہم مسئلہ ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہر دور میں ہے ۔بالخصوص وہ امتحانات جو خدا وند کریم نے اپنے اولیاء سے لئے ان کا سبب اور فلسفہ کیا ہے؟ خدا عالم کل ہونے کے باوجود آخر کیوں امتحان لیتا ہے ؟اور ان امتحانات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟۔اس تحقیق میں امتحان اور نزول بلا کے عالم مادہ کا خاصہ ہونے کے عنوان سے زیادہ بحث نہیں کی گئی کیوں کہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر دقیق تحقیق کی ضرورت ہے اس تحقیقی میں حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ عوام الناس میں امتحان و بلا سے متعلق رائج سوالات کا جواب مقالہ کی حدود اور وسعت کو مد نظر رکھ کر دیا جائے اور اپنے بیان پر آیت اور روایت کے ذریعے ثبوت فراہم کیا جائے اور اس بات کو واضح کیا جائے کہ اولیائے الہی کا امتحان گناہگار بندوں کے امتحان سے علیحدہ ہوتا ہے ہر چند ان کے مراتب خدا کی جانب سے ان کو اول عنایت ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کسوٹی پر کسا جاتا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا نے جو فیصلہ اپنے علم کے مطابق کیا تھا وہ درست تھا اور اولیاء انہی مراتب کے حقدار تھے
عالم کون کی تعلیل علی جانتے ہیں
لوحِ محفوظ کی تحلیل علی جانتے ہیں
نور بر دوش ہے کعبہ کی زمیں ، تو قدسی
آپ کے نور کی تجلیل علی جانتے ہیں
اس لئے گود میں احمد کی سنایا قرآں
قبلِ تنزیل بھی تاویل علی جانتے ہیں
یاعلی جب کہا، کہا نہ ہوا
آج تک ایسا سانحہ نہ ہوا
کھکھلاتی جدارِ کعبہ پھر
ایسا مولود دوسرا نہ ہوا
انعکاسِ صفاتِ رب کے لئے
ان سا کوئی بھی آئینہ نہ ہوا
ہیں ستون عرش، رمزِ لوح و کرسی فاطمہ
تہہ بہ تہہ ظلمات میں نورِ الہی فاطمہ
کر کے سرور کو طلب اللہ نے اسریٰ کی شب
مثل قرآن قلبِ احمد پر اتاری فاطمہ
نسیمِ جانفراء صحنِ حرم میں یہ پکار آئی
خدا کا شکر گلزارِ مودت میں بہار آئی
کھلا ہے غنچہِ بنتِ نبی نرجس کے آنگن میں
ہوئے مدہوش قدسی بھی جو بوئے گل عذار آئی
ایسا کچھ اہتمام ہو جائے
مدحِ خیر الانام ہوجائے
ان سے منسوب ہوکے نغمہِ دل
قابلِ احترام ہو جائے
فکر کے پرکار کر تدویر خاص
ذہن میں ابھری ہے اک تصویر خاص
فہم، کر فکرِ رسا سے ساز باز
کر فراست آج کچھ تدبیر خاص
روشنائی لے شعورِ عشق سے
جس دم خیال سوئے شہِ کربلا گیا
قرطاس نورِ عشق و وفا میں نہا گیا
بوئے ریاضِ خلد سے مہکے دل و دماغ
خامہ سلیقہ مدحت سرور کا پا گیا
ستارِ عشق پر چھڑی ہے منقبت حسین کی
صبا سے آرہی ہے بوئے انسیت حسین کی
فرشتے دے رہے ہیں آج تہنیت حسین کی
لفظ ومعنی نے حکایات نے دم توڑ دیا،
بات ہی بات میں ہر بات نے دم توڑ دیا
پارسا پھر سے چلا جانبِ زنداں دیکھو
پھر زلیخا کی مدارات نے دم توڑ دیا
فروغِ حسن سے دل کی کسک کا دور ہوجانا
کہاں ممکن شبِ دیجور کا کافور ہوجانا
کب آگہ تھا جمال ِ حسن اپنی قدر و قیمت سے
سکھایا عشق ہی نے حسن کو مغرور ہوجانا
آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر
بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر
ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں
دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر
نذر جون ایلیاء
زمانہ پار، سا ہو جائے گا کیا
فسانہ برملا ہوجائے گا کیا
بنے ہیں آشنا دشمن ہمارے
تو دشمن آشنا ہو جائے گا کیا
تمہارا مجرم اے میرے آقا تمہارے در پر کھڑا ہوا ہے
جزا سزا کی تو تم ہی جانو، تمہارے ہاتھوں میں فیصلہ ہے
تمہاری چوکھٹ سے متصل ہے لبوں کو ساکت کیا ہوا ہے
نوحہ
ہئے نبی کی آل و بے کسی
،قتل ہو گئے علی نقی
پھر سے کربلا بپا ہوئی
قتل ہو گئے علی نقی
۔ ہجو
نسب اسرار کا پوچھو تو جاکر اس کی مادر سے،
کہ چہرہ اس قدر حضرت کا کیوں ملتا ہے بندر سے
غلامِ نفس ہے ابلیس سے بھی ہے ذرا بڑھ کر
مکر جائے گا اک دن دیکھنا یہ ربِّ اکبر سے
طرحی ردیف "سے بہتر "
کوئی ادراک لے آ تو مرے ادراک سے بہتر
کہ دنیا میں نہیں کوئی شہِ لولاک سے بہتر
لباسِ فقر ہے فخرِ محمد، جاننے کے بعد
نہ بھائی قلب کو پوشاک اس پوشاک سے بہتر
مصرع ہزار بیت میں یہ انتخاب ہے
عیدِ غدیر حکمِ رسالت مآب ہے
روشن ہوا ہے جس سے مرا ماہتابِ فکر
عشق علی کا سینہ میں وہ آفتاب ہے
جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر
خیال جانے لگا خودبخود بسوئے امیر
خدا کا شکر ہے باقی ہوں اپنی فطرت پر
کہ پاک طینتِ آدم ہے جستجوئے امیر
عرفہ ہے عبادات کی توقیر کا دن ہے
انسان کے کردار کی تعمیر کا دن ہے
جوبن پہ ہےزُخَّارِ کرامات الٰہی
یہ خاک کا اکسیر میں تغییر کا دن ہے
عید الاضحیٰ
دینے پیغامِ محبت شمس ابھرا عید کا
ہو مبارک سب کو دن اک اور آیا عید کا
ایک دوجے کے گلے لگ جاو نفرت چھوڑ کر
یوں مناو مل کے خوشیاں ہے زمانہ عید کا
صولتِ دینِ خدا ہے دبدبہ عباس کا
ماوراء ادراک سے ہے مرتبہ عباس کا
جلوہِ نورِ دعائے بنتِ احمد ہے وجود
مصحفِ تہذیبِ حیدر باوفا عباس کا
جوبن پہ ہے جہان میں آیا شباب حق
بطحا سے وہ طلوع ہوا آفتاب حق
بن کر جوابِ طعنہِ ابتر بہ کرُّ و فر
آغوش میں خدیجہ کی ہے انتخابِ حق
تبلیغِ دین و شرعِ خدا وند کے لئے
اترا بشکلِ بنتِ پیمبر نصابِ حق
عرفان رب کے گل کی مہک احساں ہے امامِ صادق کا
قلب عشاقِ نبی کی دھڑک، احساں ہے امامِ صادق کا
جہل و شک کے اندھیاروں میں، الحاد و کفر کی آندھی میں
یہ آتشِ علم حق کی لپک، احساں ہے امامِ صادق کا
جب ہند کے بت خانے میں اسلام تھا محبوس
ہوتی نہ تھی تشریک مسلمانوں کو محسوس
اسلام سے عاری تھے مسلمانوں کے افکار
افرنگ کے پھندوں میں سیاست تھی گرفتار
https://m.youtube.com/channel/UCbSiNuE-cWAzb4QM2npzMhg
صائب جعفری کی شاعری اور نثری افکار
https://m.youtube.com/channel/UCoOi1aJEfDW8z2lMRuxygRQ
ادبیات اور دینیات کے دروس کا چینل
دونوں چینلز کو.سبسکرائب لائیک اور شئیر کریں
عیوب قافیہ
جمع و تدوین :صائب جعفری
۱۔ایطا یا شائیگاں
جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔
جادہ عرفاں پہ چلنے کا سلیقہ سیکھ لیں
منزلوں کے پار اترنے کا قرینہ سیکھ لیں
فاطمہ کے نام کی تسبیح پڑھ کر آپ بھی
کشفِ محجوباتِ عالم کا وظیفہ سیکھ لیں
یوں لفظ مستعار ہیں قرآن کے لئے
لکھنی ہے منقبت شہِ ذیشان کے لئے
تعمیر کرکے کعبہ یہ کہنے لگے خلیل
تیار ہوگیا ہے یہ مہمان کے لئے
جو عشق میں حیدر کے گرفتار ملے گا
اللہ و محمد کا وفا دار ملے گا
جو عزمِ ولایت کا علم دار ملے گا
باطل سے وہی بر سرِ پیکار ملے گا
دربدر یونہی بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
پوچھئے سورہِ انساں سے سخاوت کیا ہے
یہ کھلا سجدہ زہرا سے حقیقت کیا ہے
عبد و معبود کے رشتے کی صداقت کیا ہے
پڑھ کر ثنائےمرتضوی، عادیات میں
آئی نظر حیات کی صورت ممات میں
ہنگام یہ ولادتِ شاہِ نجف کا ہے
پھیلا ہوا ہے نورِ خدا شش جہات میں
۰۶ اپریل ۲۰۱۷ء، ۸ رجب ۱۴۳۸
۳۶۔ منقبت
ہیں عرب کا وقار شاہ چراغ
اور عجم کی بہار شاہ چراغ
نامِ نامی ہے آپ کا احمد
اور ہے مستعار شاہ چراغ
کُھل رہا ہے دنیا پر مَہر ِ نور کا در بِھی
وجد میں ہے خالق کے مِہر کا سمندر بھی
مل رہا ہے عالم کو مژدہِ حیاتِ نو
اور قدرتِ حق کا سج رہا ہے محضر بھی
یہ پیام آزادی دیتی ہے غلاموں کو
الطاف و عنایاتِ الٰہی کا یہ در ہے
گھر فاطمہ زہرا کا بڑی شان کا گھر ہے
زخّارِ کرامات ہے رحمت کا سمندر
افلاک کی وسعت ہے جہاں گم یہ وہ در ہے
رہنا ہے مجھے مرضئِ معبود پہ شاکر
دروازہِ زہرا پہ رکھا اس لئے سر ہے
آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا
دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا
”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور
”لولو و مرجان" کو عصمت کا دھارا مل گیا
تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے
خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا
نبی کا تم نے کیا اونچا نام ہے زینب
خدا کا تم پہ درود و سلام ہے زینب
فضلتیں ہوئیں جس پر تمام ہے زینب
کہ عکسِ صولتِ شاہِ انام ہے زینب
عقیلہِ بنی ہاشم سفیر کرب و بلا
تجھی سے دیں کا ہوا انصرام ہے زینب
شمیمِ ارم گنگانے لگی
علی کے قصیدےسنانے لگی
برآتی جو دیکھی مراد وجود
جدارِ حرم مسکرانے لگی
حیات بخشی ہر اک شے کو رب نے آب سے ہے
اور آب آب کی قائم علی کی آب سے ہے
کلامِ حق ہی نہیں منتسب بہ نقطہِ باء
تمام عالمِ امکاں اس انتساب سے ہے
حقیقتِ علوی ہے یہ سرِّ فیضِ خدا
ابن انشاء کے مصرع پر تضمین
تم کو کیا ہے چندا چاند
میں جانوں اور میرا چاند
تیری پروا کس کو یار
"سب کا اپنا اپنا چاند"
حق کا پرستار ہے سید علی
عزم کی دیوار ہے سید علی
میثمی کردار ہے سید علی
دیں کا علم دار ہے سید علی
یعنی وفادار ہے سید علی
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے
جب نہیں حضرت انساں پہ عیاں شانِ بتول
پھر بھلا کون قصیدہ کہے شایانِ بتول
ناطقے بند، زباں گنگ، تخیُّل خاموش
پا کے اللہ و محمد کو ثناء خوانِ بتول
مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی
شعری نشست میں پڑھی گئی غزل
ـــــــــــــــــــ
صائب جعفری
ــــــــــــــــــــ
کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے
مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے
ہاشمی خوں کا دبدبہ زینب
صولتِ دینِ مصطفیٰ زینب
نازشِ گلشنِ حیاء زینب
نکہتِ باغِ مرتضیٰ زینب
1. ہے یہ نہاں آپ کی تحریر میں
ظلمتیں پنہان ہیں تنویر میں
2.تیشہِ فرہاد سے پوچھے کوئی
کیا ہے دھرا زلف گرہ گیر میں
3.اٹھ کے وہ لیتا ترے دامن کو کیا؟
دم ہی کہاں تھا ترے نخچیر میں
مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار
.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا
جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا
بے ولائے علی نبی کی ثنا
شُکْر میں ایسا بے وفا نہ ہوا
سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی
مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا
بیدار شو.......
ازقلم صائب جعفری
ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا
نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا
...
مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے
پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا
.....
پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر
کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا