قم مقدس میں کھرمنگ بلتستان کے طلاب کی ادبی انجمن کے زیر اہتمام طرحی منقبتی مشاعرہ میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر
*قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا*
فیضان کردگار ہے جلوہ غدیر کا
منشور کائنات ہے قصہ غدیر کا
میدان حشر حشر سے پہلے دکھا دیا
پاکر رسول حق نے اشارہ غدیر کا
آیات کی زبان میں جبریل جھوم کر
سب کو سنا رہے ہیں ترانہ غدیر کا
بلغ کی صوت ہے کبھی اکملت کی صدا
*"قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا"*
بہر علی غدیر میں حکم رسول پر
منبر بنا رہے ہیں صحابہ غدیر کا
کرب و بلا کے دشت میں شبیر کے طفیل
لکھا گیا ہے خوں سے صحیفہ غدیر کا
بعد نبی جہاں میں مسلماں نہ ہوتے خوار
اے کاش حفظ کرتے جو خطبہ غدیر کا
وسعت خدا ہی جانے علی کی حیات کی
صدیوں پہ تو ہے چھایا شبینہ غدیر کا
ایمان اور نفاق کو کرتی ہے یہ جدا
یہ بھی ہے اک عجیب سلیقہ غدیر کا
کیونکر وہ سوئے حضرت حق ہوگا گامزن
جو کاروں چنے گا نہ رستہ غدیر کا
میثم کی.طرح سولی مقدر ہے اس لئے
افکار پر ہمارے ہے سایہ غدیر کا
گرداب سے سقیفہ کے وہ لوگ بچ گئے
جن کو ہوا نصیب سفینہ غدیر کا
ہر ایک ورد کی مجھے لذت ہوئی نصیب
ورد زباں ہوا جو وظیفہ غدیر کا
وہ خواہشات دہر سے صائب ہے بے نیاز
جس کو میسر آئے خزانہ غدیر کا
صائب جعفری
۲۹ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران