- نوحہ
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
تابہ فلک گونج اٹھی روح الامیں کی صدا
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
زینب و کلثوم نے پھینک دی سر سے ردا
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
نوحہ
نوحہ خواں فرشِ زمیں گریہ کناں تھا آسماں
پڑھ رہی تھیں انا للہ قید میں سب بیبیاں
فاطمہ زہرا کی پوتی شام کے زندان میں
سو گئی ہے گھڑکیاں سن سن کے کھا کر سیلیاں
نوحہ
بہارِ باغِ رسول مقتل میں شاہِ دیں یوں لٹا رہے ہیں
حسین دل کے لہو سے اپنے زمینِ مقتل سجا رہے ہیں
گری ہیں غش کھا کے در پہ زینب اٹھے ہیں سجاد غش سے یکدم
صدائے ہل من کو سن کے اصغر زمیں پہ خود کو گرا رہے ہیں
نوحہ
چل گیا شبیر کی گردن پہ خنجر کیا ستم ہے
اہلِ بیتِ پاک پر ٹوٹا عجب کوہِ الم ہے
لاش اکبر کی اٹھائیں کس طرح سبطِ پیمبر
نور آنکھوں سے گیا ہے اور پشتِ شاہ خم ہے
یہ زبانِ بے زبانی سے علی اصغر پکارے
تیر کھا کر مسکرانا کیا درِ خیبر سے کم ہے
ہائے غربت دیکھئے شبیر کی ہنگامِ رخصت
نے علم داِرِ جری نے فوج ہے اور نے علم ہے
ہےگلوئے خشک اور خنجر ہے شمر بد گہر کا
کر نہ سر تن سے جدا یہ دے رہی زہرا قسم ہے
سر سرِ نیزہ ہے جسمِ نازنیں ریگِ تپاں پر
دیکھ کر منظر لہو روئی علی کی چشمِ نم ہے
خوں بھرا کرتا لئے تا ریکئِ شب میں سکینہ
ڈھونڈتی پھرتی ہے کس جا سینہِ شاہِ امم ہے
مصطفی کی بیٹیوں کو جانے کیوں عرصہ لگا تھا
فاصلہ بازار سے دربار کا گو کچھ قدم ہے
لوٹ سکتے ہی نہیں جس کو جہاں والے اے صاَئب
ایسی دولت ایسا سرمایہ فقط سرور کا غم ہے
۱ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ
خون میں تر بتر ہوگئی کربلا
بعدِ عباس کیسا ستم یہ ہوا
کٹ گئے نہر پر شانے عباس کے
بچے پیاسے رہے کوزے خالی رہے
سرپٹکتی رہی کرب سے کربلا
نوحہ
ہئے نبی کی آل و بے کسی
،قتل ہو گئے علی نقی
پھر سے کربلا بپا ہوئی
قتل ہو گئے علی نقی