آج کا عمار ہے سید علی (نظم)
حق کا پرستار ہے سید علی
عزم کی دیوار ہے سید علی
میثمی کردار ہے سید علی
دیں کا علم دار ہے سید علی
یعنی وفادار ہے سید علی
رن پڑے جب باطل و حق میں کبھی
دیکھنا صف اس گھڑی عمّار کی
حق کی شناسائی کی خاطر نبی
دے گئے معیارِ حقیقت یہی
آج کا عمّار ہے سید علی
عظمتِ اسلام کی تجلیل کو
حکمِ خدا وند کی تعمیل کو
وحدتِ اسلام کی تشکیل کو
یعنی کہ قرآن کی تاویل کو
بر سرِ پیکار ہے سید علی
حق کی طرف جدّ و جہد کے لئے
دشمنِ اسلام کی رد کے لئے
تین سو تیرہ کے عدد کے لئے
مہدی برحق کی مدد کے لئے
دین کی تلوار ہے سید علی
جس کے لئے ظلم کی طاقت ہے ہیچ
قیصر و پرویز کی شوکت ہے ہیچ
مشرق و مغرب کی امارت ہے ہیچ
حق کے حریفوں کی حقیقت ہے ہیچ
ایسا طرح دار ہے سید علی
چاہِ مذلت میں نصاریٰ گرے
خاک میں صیہونی ارادے ملے
جس کی بصیرت کے سبب دہر نے
دیکھے حقائق عجب انداز کے
ایسا عمل دار ہے سید علی
دینِ محمد کا ہے درپن وہی
جس سے صفِ کفر میں ہے کھلبلی
عارض اسلام ہے روشن ابھی
لرزہ بر اندام ہیں دشمن سبھی
حق کا جِلَو دار ہے سید علی
گونجے گی جس وقت صدائے ظہور
صائب دلگیر بنا دل کو طور
کعبہ پہنچ جاوں گا مثل طیور
کیوں نہ ہو ایمان میرا یہ حضور
جب مرا سالار ہے سید علی
ہندوستان سے چھپنے والے رسالے ''رہبر معظم اور اردو شعراء'' کے صفحہ نمبر ۱۶۰ پر یہ نظم درج ہے.. ۲۰۱۹