سر گریباں میں ڈال.لیتے ہیں
Saturday, 14 January 2023، 10:44 PM
رنگ، رنگ کمال لیتے ہیں
عشق یعنی ملال لیتے ہیں
خود کو اپنی خودی سے کرکے جدا
اس کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں
عشق میں ڈوب کر ابھرنے کو
کربلا کی مثال لیتے ہیں
رات کا نام ہم سے اہل جنوں
کب برائے وصال لیتے ہیں
دیکھ کر زاہدوں کے سجدے رند
*سر گریباں میں ڈال لیتے ہیں**
آو بہر نماز عشق ذرا
دل سے آب زلال لیتے ہیں
منعکس ہو جمال یار چلو
ظرف اپنا کھنگال لیتے ہیں
نیک و بد کوئی سوال نہیں
ہم ترے رخ سے فال لیتے ہیں
بیچ کر خود کو عاشقان جنوں
تیرے ہونٹوں کا خال لیتے ہیں
ابر باراں ہے سبزہ و گل ہے
آو حسرت نکال لیتے ہیں
ہم مروت کے مارے سانپوں کو
آستینوں میں پال لیتے ہیں
جسم کی.لذتوں کی خاطر ہم
روح و جاں پر وبال لیتے ہیں
صائب جعفری
زیبا کنارـ گیلان ـ ایران
۱۲ نومبر ۲۰۲۲
۲۱ آبان ۱۴۰۱
۱۷ ربیع الثانی ۱۴۴۴
*یہ مصرع میرتقی میر کا ہے اس پر فی البدیہہ طرحی محفل مشاعرہ میں اس تضمین کے ہمراہ مندرجہ بالا کہی گئی
23/01/14