مورخہ تین فروری ۲۰۲۱ کو برادر ہادی ولایتی کی رہائش گاہ پر ایک طرحی محفل سننے کے لئے پہنچا تو برادر عزیز مصر ہوگئے کہ آپ کو کلام پڑھنا ہے مصرع طرح قائم امروہوی صاحب کی.منقبت سے لیا گیا تھا سو کوئی ۵ سے ۷ منٹ میں یہ ۵ شعر موزوں ہوئے اور یہی پڑھ دیئے شاید ان کو فی البدیہہ کہہ سکتے ہیں
چاہئے بس مرضی معبود اکبر فاطمہ
لکھ رہا ہوں منقبت تیری برابر فاطمہ
انعکاس قوت خالق علی کی ذات ہے
عفت و عصمت کے آئینے کا جوہر فاطمہ
ہیں ترے دریوزہ گر کروبیاں ارض و سما
یعنی تو بھی ہے غنا میں رب کا مظہر فاطمہ
لحن.خالق میں قصیدہ آپ کا کہتے ہوئے
آیتیں اتریں ہیں اکثر آپ کے گھر فاطمہ
آپ کا صائب شفاعت اور شفا کے واسطے
اٹھ کے جائے آپ کے در سے کہاں پر فاطمہ
۳ فروری ۲۰۲۱
محترم شاعر اختر کلیم صاحب کے دولت کدے پر منعقدہ طرحی محفل منقبت میں پیش کیا گیا کلام
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں خواہر مولا رضا
فاطمہ کا آئینہ ہیں خواہر مولا رضا
باغ ہستی میں شمیم عفت و عصمت ہیں آپ
مثل زینب باخدا ہیں خواہر مولا رضا
خود کو کہتے ہیں بقیّع کا مجاور شان سے
جو ترے در کے گدا ہیں خواہر مولا رضا
قم حرم ہے اہل بیت مصطفیٰ کے واسطے
اور قم کی مالکہ ہیں خواہر مولا رضا
جو شہیدان وفا نے راہ الفت میں جلائے
ان چراغوں کی ضیا ہیں خواہر مولا رضا
گر سمجھ آئے تو کافی ہے فضیلت کے لئے
خواہر مولا رضا ہیں خواہر مولا رضا
حرف تک محدود نئیں ان کی عطا کا سلسلہ
حامل رمز عطا ہیں خواہر مولا رضا
ہم نشیں مایوس کیوں ہے کیا نہیں تجھ کو خبر
افتخار ہل اتیٰ ہیں خواہر مولا رضا
جن پہ حجت کبریا کی ہو رہی ہو خود فدا
فاطمہ زہرا ہیں یا ہیں خواہر مولا رضا
اوّل ذیقعد سے بہر تشیّع تا ابد
برکتوں کا سلسلہ ہیں خواہر مولا رضا
کیوں نہ ہو مقبول درگاہ خدا وندی میں جب
خود دعا کا مدّعا ہیں خوہر مولا رضا
پاک تقصیر و غلو سے ہے فقط وہ طائفہ
جس کی برحق رہنما ہیں خواہر مولا رضا
خامنہ ای اور خمینی سے کھلا یہ دہر پر
کس قدر معجز نما ہیں خواہر مولا رضا
پوچھتے ہیں لوگ کس بوتے پہ ہے اتنی اکڑ
سر اٹھا کھل کر بتا ہیں خواہر مولا رضا
سر قدم کرکے ذرا چلئے تو خود کھل جائے گا
وصل حق کا راستہ ہیں خواہر مولا رضا
کیوں نہ چومے گی قدم منزل مرے خود آن کر
جب کہ میری ناخدا ہیں خواہر مولا رضا
عقل ہے دنگ اور دل حیرت میں، صائب حق یہ ہے
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں خواہر مولا رضا
۱۲ جون ۲۰۲۱
اول ذیقعد ۱۴۴۲
عید غدیر خم تمام مسلمانوں کو مبارک ہو
شب گذشتہ قم میں کی ایک محفل کے لئے لکھی اور پڑھی گئی طرحی منقبت بمناسبت عید غدیر خم
مئے عشق کے خم لنڈھائے گئے ہیں
بہاروں کے نغمے سنائے گئے ہیں
علی کی ولایت کا اعلان کرکے
انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا
طرحی مصرع: ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے
ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہے
کعبہ منا اور مروہ صفا سب کچھ ورثہ سجاد کا ہے
منقبت
در وفا پر کھڑا ہوں دل میں بسائے مولا رضا کی خوشبو
ہوں منتظر جسم و جاں پہ برسے سخائے مولا رضا کی خوشبو
یہ آرزو ہے کہ معجزہ یہ دکھائے مولا رضا کی خوشبو
نصیب چشمِ شعور ہو نقشِ پائے مولا رضا کی خوشبو
۔منقبت
آپ سے ہے آشکارا یا امامِ عسکری
عشقِ ربانی کا دھارا یا امامِ عسکری
لفظ بے شک ہیں جدا گانہ جدا معنی نہیں
چرخِ حکمت کا ستارہ یا امامِ عسکری
منقبت
اگر آل محمد سے محبت ہو نہیں سکتی
تو پھر فکر و عمل کی بھی طہارت ہو نہیں سکتی
جبیں سجدے کرے لاکھوں کسی کے آستانے پر
نہ جھک پائے اگر دل تو عقیدت ہو نہیں سکتی
منقبت
ہے چوکھٹ سے رواں دریائے عرفانِ خدا بی بی
مثالِ مرقدِ زہرا ہے مرقد آپ کا بی بی
سخاوت کا جہاں بھر میں ہے جاری سلسلہ بی بی
کرم سے آپ کے ہیں فیض یاب ارض و سما بی بی
منقبت
نہالِ دل نے مہکائے بجائے خود ثناء کے پھول
مئے الفت نے رنگیں کر دئیے عشق و ولا کے پھول
فلک نازاں زمیں ساداں فضائیں گل فشاں ہیں آج
مہکتے ہیں چمن میں صنعتِ رب علا کے پھول
منقبت
پا گئی ذائقہِ حق جو زباں مشہد میں
فکر بالیدہ ہوئی حرف جواں مشہد میں
ہستئِ کفر ہوئی ایسے دھواں مشہد میں
عقل حیراں ہے جنوں رقص کناں مشہد میں
منقبت
ہے راستہ خدا سے یہی اتصال کا
تابع عمل ہو عشقِ علی کے خیال کا
انسان قدسیوں سے سوا پا گیا کمال
قطرہ پیا جو عشق کے آبِ زلال کا
ستارِ عشق پر چھڑی ہے منقبت حسین کی
صبا سے آرہی ہے بوئے انسیت حسین کی
فرشتے دے رہے ہیں آج تہنیت حسین کی
صولتِ دینِ خدا ہے دبدبہ عباس کا
ماوراء ادراک سے ہے مرتبہ عباس کا
جلوہِ نورِ دعائے بنتِ احمد ہے وجود
مصحفِ تہذیبِ حیدر باوفا عباس کا
یوں لفظ مستعار ہیں قرآن کے لئے
لکھنی ہے منقبت شہِ ذیشان کے لئے
تعمیر کرکے کعبہ یہ کہنے لگے خلیل
تیار ہوگیا ہے یہ مہمان کے لئے
۰۶ اپریل ۲۰۱۷ء، ۸ رجب ۱۴۳۸
آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا
دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا
”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور
”لولو و مرجان" کو عصمت کا دھارا مل گیا
تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے
خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا
نبی کا تم نے کیا اونچا نام ہے زینب
خدا کا تم پہ درود و سلام ہے زینب
فضلتیں ہوئیں جس پر تمام ہے زینب
کہ عکسِ صولتِ شاہِ انام ہے زینب
عقیلہِ بنی ہاشم سفیر کرب و بلا
تجھی سے دیں کا ہوا انصرام ہے زینب
شمیمِ ارم گنگانے لگی
علی کے قصیدےسنانے لگی
برآتی جو دیکھی مراد وجود
جدارِ حرم مسکرانے لگی
حیات بخشی ہر اک شے کو رب نے آب سے ہے
اور آب آب کی قائم علی کی آب سے ہے
کلامِ حق ہی نہیں منتسب بہ نقطہِ باء
تمام عالمِ امکاں اس انتساب سے ہے
حقیقتِ علوی ہے یہ سرِّ فیضِ خدا
مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار
.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا
جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا
بے ولائے علی نبی کی ثنا
شُکْر میں ایسا بے وفا نہ ہوا
سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی
مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا