الطاف و عنایات الہی کا یہ در ہے(منقبت)
الطاف و عنایاتِ الٰہی کا یہ در ہے
گھر فاطمہ زہرا کا بڑی شان کا گھر ہے
زخّارِ کرامات ہے رحمت کا سمندر
افلاک کی وسعت ہے جہاں گم یہ وہ در ہے
رہنا ہے مجھے مرضئِ معبود پہ شاکر
دروازہِ زہرا پہ رکھا اس لئے سر ہے
در پیش ثناء فاطمہ زہرا کی ہے یعنی
انوار کی منزل سے تخیل کا گذر ہے
وہ جس کو کہیں حاصل ِ معراجِ محمد
آغوشِ خدیجہ میں دمکتا وہ گہر ہے
جو عالمِ ناسوت میں ہے جلوہ فگن آج
در اصل وہ لاہوت کے عالم کے سحر ہے
قرآن کو پایا تری مدحت سے مزین
والفجر کہیں، قدر کہیں شمس و قمر ہے
کرسی کی ہے تاویل یہی عرش کا پایہ
مشکوٰۃ ہے یہ کوکب درّی ہے شجر ہے
قدخاب ہے انجام عدو کا ترے زہرا
قد افلح حبداروں کی تیرے یہ خبر ہے
معیارِ عبادت ترے سجدوں میں ہے پنہاں
واللہ کہ سیرت تیری معراجِ بشر ہے
از چہرہِ آدم تا روئے مہدئِ دوراں
یہ فاطمہ کا نور ہے جو محوِ سفر ہے
محفوظ ہے تخریب سے جو نظم جہاں کا
اے فاطمہ زہرا تیرا فیضانِ نظر ہے
چکی کی مشقت ہو یا محراب عبادت
ہر حال میں معبود کی مرضی پہ نظر ہے
جس ذات کے صدقے میں ہے آباد دو گیتی
اس ملکہِ کونین کی فاقوں میں بسر ہے
جب ہوگی عیاں حشر کے دن تیری حقیقت
سب نظریں جھکی ہوں گی ، کہاں تابِ بصر ہے
معبود تلک جانے کی خواہش ہے جو سالک
تو یاد رہے فاطمہ ہی راہ گذر ہے
پھیلائے ہوئے خُلد ہے بانہیں پئے عشاق
دشمن کے لئے آپ کے تیار سقر ہے
باطل کی صفیں چھوڑ کے آجائے سوئے حق
انسان کو حُر سا ترا ادراک اگر ہے
حُر حُر کو کیا دے دیا ایمان وہب کو
قربان ترے عشق کے اے مادرِ ہستی
کچھ خوف ہے لٹنے کا نہ مرجانے کا ڈر ہے
حق گوئی سکھا دی مرے معبود نے مجھ کو
یہ مدحتِ زہرا کا ملا مجھ کو ثمر ہے
ہو کوئی زمیں خامہ لرزتا نہیں میرا
یہ میرے تخیل پہ محبت کا اثر ہے
۱۸ جمادی الآخر ۱۴۳۸، ۱۷ مارچ ۲۰۱۷
قم المقدس