طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے
فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے
تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے
تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے
فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے
"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"
طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے
فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے
تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے
تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے
فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے
"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"
خام ہیں قلب و نظر خام ہیں افکار ابھی
جذبہِ عشق کو اک آنچ ہے درکار ابھی
میں سرِ دار اناالحق کی صدا دیتا ہوں
عشق کا سودا مرے سر پہ ہے اسوار ابھی
غزل
بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
غزل
گر خدا وند کو خدا کرلیں
زندگی موت سے جدا کرلیں
زندہ لاشیں سمجھ نہ پائیں گی
چلئے مردوں سے کچھ گلا کر لیں
غیر کے ساتھ بات دور کی ہے
کاش ہم خود سے ہی وفا کر لیں
دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں
ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں
حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز
بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں
یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے
آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں
چل دئیے کیوں رات آدھی چھوڑ کر
صیقل جذبات آدھی چھوڑ کر
موت کی آغوش میں ہم سوگئے
درد کی بارات آدھی چھوڑکر
اگر دل میں بسا تیرے خدا ہے
تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے
مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے
کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے
خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے
تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے
قلب میں اترا ہوا عشق علی گر ہوگا
دل سے پھر اترا ہوا دنیا کا سب زر ہوگا
عید کی خوشیاں منائے گا وہی پڑھ کے درود
مثل قنبر جو یہاں بندہ حیدر ہوگا
غزل
بہت دیر خود کو رلانا پڑا
یونہی جب کبھی مسکرانا پڑا
تری آرزووں کی تکمیل کو
بس آپ اپنا ہم کو مٹانا پڑا
پڑھتا ہے قصیدہ یوں قرآن خدیجہ کا
اللہ قَدَر داں ہے ہر آن خدیجہ کا
آیاتِ الٰہی کی تنزیل کو خالق نے
چن رکھا تھا اوّل سے دالان خدیجہ کا
علی کے جو نہیں شیدا تبرا ان پہ کرتے ہیں
جو شیطانوں کے ہیں آقا تبرا ان پہ کرتے ہیں
وہ جن پر مارنا پتھر ہے فرضِ حج ،ہے اسرائیل
اور انگلستان و امریکہ، تبرا ان پہ کرتے ہیں
منقبت مزاح
کچھ گلوں کی ثنا کی بھی ہو جائے
یوں معطر ہوا بھی ہو جائے
کچھ تولا کی بات کیجے کہ یوں
اہلِ حق کی ثناء بھی ہو جائے
غزل
گوشوارے چھٹ کے جب بالی ہوئے
غیر کیا اپنے بھی کب والی ہوئے
جام، جھولی، کاسہ، دامن، جیب، ہاتھ
خالی دل بھر آنے کو خالی ہوئے
منقبت
ہر نفس بس یہ کیا ہے با صفا سجاد نے
نقش عبد اللہ کو روشن کیا سجاد نے
بے نواوں کو عطا کرکے دعاوں کی نوا
ہم سخن بندوں کو خالق سے کیا سجاد نے
نوحہ/حکایت
میں نے بابا سے کہا کیجے حکایت بابا
عہدِ رفتہ کسی بچے کا کہئے قصہ
بولے بابا کہ ہے یہ ذکر بہت پہلے کا
ایک بچہ تھا جو خیمے میں تھا گریاں پیاسا
منقبت
جو چل رہا سلیقے سے کاروبار تمام
ہے کائنات کا مولا پہ انحصار تمام
ثناء علی کی بیاں کر نہیں سکے گا کبھی
نہ لے جو مدح کو قرآن مستعار تمام
نوحہ
نوحہ خواں فرشِ زمیں گریہ کناں تھا آسماں
پڑھ رہی تھیں انا للہ قید میں سب بیبیاں
فاطمہ زہرا کی پوتی شام کے زندان میں
سو گئی ہے گھڑکیاں سن سن کے کھا کر سیلیاں