طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے
فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے
تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے
تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے
فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے
"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"
خام ہیں قلب و نظر خام ہیں افکار ابھی
جذبہِ عشق کو اک آنچ ہے درکار ابھی
میں سرِ دار اناالحق کی صدا دیتا ہوں
عشق کا سودا مرے سر پہ ہے اسوار ابھی
پڑھتا ہے قصیدہ یوں قرآن خدیجہ کا
اللہ قَدَر داں ہے ہر آن خدیجہ کا
آیاتِ الٰہی کی تنزیل کو خالق نے
چن رکھا تھا اوّل سے دالان خدیجہ کا
منقبت
گذرے پت جھڑ کے زمانے آ گیا سرور کا پھول
قدسیوں کے ہیں ترانے آگیا سرور کا پھول
وجد میں آئی صبا ڈھلنے لگے نغمے نئے
دل لگا خود گنگنانے آ گیا سرور کا پھول
منقبت
لکھ رہا ہوں میں جو ثنائے بتول
مجھ کو غلام اپنا بنائے بتول
بن گیا ہوں میں جو گدائے بتول
ہے یہ بہت خاص عطائے بتول
منقبت
وائے حسرت کہ نہیں ذوقِ عقیدت کامل
ورنہ وہ آج بھی ہیں لطف و کرم پر مائل
ہر نَفَسْ الجھا ہوا نَفْسْ کے جنجال میں ہے
حد مگر یہ ہے نظر آتا نہیں کوئی خجل
کچھ ہم پہ نہیں موقوف ثنا ہر ذرہ ہے گویا مدحت میں
خوشبوئے ولائے آلِ نبی شامل ہے گلوں کی نکہت میں
پرکیف فضائے دہر ہوئی ہے وجد میں کوثر جنت میں
جوبن پہ ہے فطرت کی دلہن خلقت ہے ڈوبی رحمت میں
منقبت
جو نقش پہ حیدر کے چلتا نظر آتا ہے
انساں وہ فرشتوں سے بالا نظر آتا ہے
کعبہ سے جو لپٹا ہے حیدر کی عداوت میں
ساحل پہ کھڑا ہوکر پیاسا نظر آتا ہے
اوّل ہے جو خلقت میں افضل ہے جو خلقت سے
کچھ عقل کے اندھوں کو چوتھا نظر آتا ہے
رقم جو زیست کے صفحہ پہ نام حیدر ہے
تو خلد بھی ہے مری میرا حوضِ کوثر ہے
جو خود میں ڈوبنے والوں کو بخشتا ہے حیات
ولائے حیدرِ کرار وہ سمندر ہے
جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر
خیال جانے لگا خودبخود بسوئے امیر
خدا کا شکر ہے باقی ہوں اپنی فطرت پر
کہ پاک طینتِ آدم ہے جستجوئے امیر
جادہ عرفاں پہ چلنے کا سلیقہ سیکھ لیں
منزلوں کے پار اترنے کا قرینہ سیکھ لیں
فاطمہ کے نام کی تسبیح پڑھ کر آپ بھی
کشفِ محجوباتِ عالم کا وظیفہ سیکھ لیں
جب نہیں حضرت انساں پہ عیاں شانِ بتول
پھر بھلا کون قصیدہ کہے شایانِ بتول
ناطقے بند، زباں گنگ، تخیُّل خاموش
پا کے اللہ و محمد کو ثناء خوانِ بتول