کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی.کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں.بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہوگا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
وبال جان ہی بن جائے گا کمال سخن
نصیب سے جو ہوئے اپنے دودماں پتھر
دعائے نیم شبی رائیگاں نہیں جاتی
یہ شہریار کا مصرع ہے کیا گراں پتھر
تمہارے نام کی جس دم صدا لگاتا ہوں
تو سرخرو مجھے کرتے ہیں.مہرباں پتھر
بناوٹی ہے محل اور جھونپڑی کا فرق
سبھی کے آخری گھر کا ہے جب نشاں پتھر
صائب جعفری
۲۹ ستمبر ۲۰۲۲
قم ایران
انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل*
بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے
اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے
یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے
یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر ضروری ہے
سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے
جو پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے
یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے
وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے
دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"
سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے
نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے
بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے
طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے
صائب جعفری
جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار
مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے
عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون
خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون
خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون
آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون
تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون
بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون
حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون
راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون
ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون
جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون
۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران
۱. رقیب کرکے مدارات خوش نہیں ہونگے
برے ہوں اچھے ہوں حالات خوش نہیں ہونگے
۲. مرے بغیر تو خوش ہیں تمام لوگ مگر
مجھے خبر ہے مرے ساتھ خوش نہیں ہونگے
۳. بتا دے کون سا اعزاز مرے پاس نہیں
مگر یہ لوگ مرے ہاتھ خوش نہیں ہونگے
۴. میں ہاتھ لگ گیا ان کے تو شوق کی خاطر
نکال لیں گے وہ جذبات خوش نہیں ہونگے
۵.بہت سے جھوم اٹھیں گے ہماری غزلوں پر
مگر یہ ذات کے بد ذات خوش نہیں ہونگے
۶.یہ ہند فطرت و قصاب طینت اے وائے
کلیجہ کھائیں گے دن رات، خوش نہیں ہونگے
۷. اناڑیوں کا بنا ہوں حریف جانتا ہوں
یہ مات کھائیں یا دیں مات خوش نہیں ہونگے
۸.رہے یہ دل کی جو دل میں بہت ہی اچھا ہے
کہ آپ کرکے ملاقات خوش نہیں ہونگے
۹.بہار رت سے ہیں نالاں مرے چمن کے گلاب
بلا کی برسی جو برسات خوش نہیں ہونگے
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس
بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل
ایسا ہوا تھا اک بار احساس
میرا نہیں تجھ کو یار احساس
میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہے
زر کے جہاں میں بے کار احساس
تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیں
عزت، محبت، اشعار، احساس
پھر آج جیسا شاید نہ ہوگا
حساسیت سے دوچار احساس
آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیں
ہے ذہن پر تیرے بار احساس
لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہے
کرنے لگے اب اغیار احساس
کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکن
ذرہ نہیں کرتا خار احساس
سجدہ بہر صورت لازمی ہے
گرچہ نہیں اب دیں دار احساس
پینا نہیں تو بھرتے ہیں کیوں جام
کرتے نہیں کچھ مے خوار احساس
اس وقت تک مٹ جاتا ہے سب کچھ
ڈستا ہے بن کر جب مار احساس
بولی لگاؤ کوئی کھری سی
میں بیچتا ہوں بیدار احساس
اچھی ہیں سب کی فن کاریاں پر
صائب ہے تیرا شہکار احساس
صائب جعفری
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس
کیا آخری برس یہ دنیا کا اے خدا ہے
یہ سال کیسے کیسے شہکار کھا گیا ہے
قصیدہ
در ہجو بعضی از مار ہای آستین
بے مایہ وتوقیر ہیں یہ خر مرے آگے
در اصل ہیں خنزیر کا گوبر مرے آگے
بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
حقیقت ایک ہے وہ تو ہے باقی افسانہ
خیال و خواب کی دنیا سے کیا شغف ان کو
محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی
غزل
بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
غزل
گر خدا وند کو خدا کرلیں
زندگی موت سے جدا کرلیں
زندہ لاشیں سمجھ نہ پائیں گی
چلئے مردوں سے کچھ گلا کر لیں
غیر کے ساتھ بات دور کی ہے
کاش ہم خود سے ہی وفا کر لیں
دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں
ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں
حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز
بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں
یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے
آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں
چل دئیے کیوں رات آدھی چھوڑ کر
صیقل جذبات آدھی چھوڑ کر
موت کی آغوش میں ہم سوگئے
درد کی بارات آدھی چھوڑکر
اگر دل میں بسا تیرے خدا ہے
تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے
مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے
کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے
خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے
تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے
غزل
بہت دیر خود کو رلانا پڑا
یونہی جب کبھی مسکرانا پڑا
تری آرزووں کی تکمیل کو
بس آپ اپنا ہم کو مٹانا پڑا
غزل
گوشوارے چھٹ کے جب بالی ہوئے
غیر کیا اپنے بھی کب والی ہوئے
جام، جھولی، کاسہ، دامن، جیب، ہاتھ
خالی دل بھر آنے کو خالی ہوئے
رہ گیا عشق جو ناکام تمنا بن کر
رہ گئی نوعِ بشر ایک تماشہ بن کر
شاہ بن کر وہ ملا ہو یا گدا سا بن کر
مجھ سے ہر بار ملا ہے وہ پرایا بن کر
نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے
مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے
میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر
کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے
لفظ ومعنی نے حکایات نے دم توڑ دیا،
بات ہی بات میں ہر بات نے دم توڑ دیا
پارسا پھر سے چلا جانبِ زنداں دیکھو
پھر زلیخا کی مدارات نے دم توڑ دیا
فروغِ حسن سے دل کی کسک کا دور ہوجانا
کہاں ممکن شبِ دیجور کا کافور ہوجانا
کب آگہ تھا جمال ِ حسن اپنی قدر و قیمت سے
سکھایا عشق ہی نے حسن کو مغرور ہوجانا
آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر
بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر
ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں
دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر
نذر جون ایلیاء
زمانہ پار، سا ہو جائے گا کیا
فسانہ برملا ہوجائے گا کیا
بنے ہیں آشنا دشمن ہمارے
تو دشمن آشنا ہو جائے گا کیا
ابن انشاء کے مصرع پر تضمین
تم کو کیا ہے چندا چاند
میں جانوں اور میرا چاند
تیری پروا کس کو یار
"سب کا اپنا اپنا چاند"
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے
مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی
شعری نشست میں پڑھی گئی غزل
ـــــــــــــــــــ
صائب جعفری
ــــــــــــــــــــ
کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے
مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے
1. ہے یہ نہاں آپ کی تحریر میں
ظلمتیں پنہان ہیں تنویر میں
2.تیشہِ فرہاد سے پوچھے کوئی
کیا ہے دھرا زلف گرہ گیر میں
3.اٹھ کے وہ لیتا ترے دامن کو کیا؟
دم ہی کہاں تھا ترے نخچیر میں
ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا
نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا
...
مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے
پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا
.....
پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر
کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا
عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا
کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا
ــــــــــــــــــــــــــــ
جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش
اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ سخاوت اگر افلاک کریں
میرا حصہ خس و خاشاک کریں
یہ ہو خوں نابہ فشانی کا اثر
نالے پتھر کو بھی نم ناک کریں
سنا تھا ہوتی ہیں از بسکہ بے ضرر آنکھیں
مگر بنا گئیں اس جسم کو شرر آنکھیں
تمام قصہ ہجر و وصال کی تلخیص
مہ تمام، خنک رات ،رہگذر آنکھیں
صائب جعفری:
۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ نے غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعری ادبی نشست کا اہتمام کیا جس میں تمام شعراء نے غالب کی مختلف غزلوں پر تضمین پیش کی وہیں راقم الحروف صائب جعفری نے غالب کی ایک زمین میں چند ابیات کہنے کی جسارت کی اور غالب کے مصرع "طاقت بیداد انتظار نہیں ہے" پر تضمین کی جو پیش خدمت ہے...
گلشن احساس پُر بہار نہیں ہے
کیونکہ میسر ترا جوار نہیں ہے
کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے
زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے
ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے
دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے