حد ہے
Saturday, 14 January 2023، 10:42 PM
*جہاں فرشتوں کی خاطر بنی ہوئی حد ہے*
*وہاں بھی خاک ہماری پہنچ گئی حد ہے*
*ہم ایسے سادہ مزاجوں کے ساتھ دنیا کو*
*منافقت کی ضرورت پڑی ـ کوئی حد ہے*
*مجھے پھراتے رہے تم دیار ظلمت میں*
*تمہیں خبر تھی کہاں پر ہے روشنی حد ہے*
*ہوا تو خیر مخالف رہی ہمیشہ مگر*
*خود اپنے ہم بھی نہ حامی رہے یہی حد ہے*
*جنہیں ازل سے تمنا ہے موت کی میری*
*انہی کے ساتھ گذرتی ہے زندگی حد ہے*
*غموں پہ رقص کریں اور خوشی میں روئیں نہ کیوں؟*
*کہ غم خوشی میں نہاں غم میں ہے خوشی حد ہے*
*وہ حریت کا مبلغ ہے آج کل جس کا*
*ہے اختیار فقط قید بے بسی، حد ہے*
*جسے زمانہ سمجھتا ہے بے ضرر مجنوں*
*اسے ہے عشق کے رازوں کی آگہی حد ہے*
*ہر ایک رنگ میں اسکا ہی رنگ ہے لیکن*
*ہزار جلووں کا حاصل نہیں دوئی حد ہے*
صائب جعفری
قم المقدسہ ـ ایران
12:55 AM
Nov 16,2022
23/01/14