حق کا پرستار ہے سید علی
عزم کی دیوار ہے سید علی
میثمی کردار ہے سید علی
دیں کا علم دار ہے سید علی
یعنی وفادار ہے سید علی
حق کا پرستار ہے سید علی
عزم کی دیوار ہے سید علی
میثمی کردار ہے سید علی
دیں کا علم دار ہے سید علی
یعنی وفادار ہے سید علی
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے
جب نہیں حضرت انساں پہ عیاں شانِ بتول
پھر بھلا کون قصیدہ کہے شایانِ بتول
ناطقے بند، زباں گنگ، تخیُّل خاموش
پا کے اللہ و محمد کو ثناء خوانِ بتول
مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی
شعری نشست میں پڑھی گئی غزل
ـــــــــــــــــــ
صائب جعفری
ــــــــــــــــــــ
کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے
مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے
ہاشمی خوں کا دبدبہ زینب
صولتِ دینِ مصطفیٰ زینب
نازشِ گلشنِ حیاء زینب
نکہتِ باغِ مرتضیٰ زینب
1. ہے یہ نہاں آپ کی تحریر میں
ظلمتیں پنہان ہیں تنویر میں
2.تیشہِ فرہاد سے پوچھے کوئی
کیا ہے دھرا زلف گرہ گیر میں
3.اٹھ کے وہ لیتا ترے دامن کو کیا؟
دم ہی کہاں تھا ترے نخچیر میں
مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار
.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا
جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا
بے ولائے علی نبی کی ثنا
شُکْر میں ایسا بے وفا نہ ہوا
سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی
مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا
بیدار شو.......
ازقلم صائب جعفری
ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا
نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا
...
مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے
پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا
.....
پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر
کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا
زکریا شہید......
مدینے سے خبر کیسی یہ آئی
دہائی یا رسول اللہ دہائی
سنا ہے عشق آلِ مصطفیٰ میں
سنا ہے جرمِ عشق مرتضیٰ میں
عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا
کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا
ــــــــــــــــــــــــــــ
جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش
اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ سخاوت اگر افلاک کریں
میرا حصہ خس و خاشاک کریں
یہ ہو خوں نابہ فشانی کا اثر
نالے پتھر کو بھی نم ناک کریں
سنا تھا ہوتی ہیں از بسکہ بے ضرر آنکھیں
مگر بنا گئیں اس جسم کو شرر آنکھیں
تمام قصہ ہجر و وصال کی تلخیص
مہ تمام، خنک رات ،رہگذر آنکھیں
غزل عاشورای
کربلا محور افکار حقیقت گردید
ہر شهید آیه ی قرآنِ مودّت گردید
ای مسلمان تو مکن خوف ز فوج باطل
یاد کن کرب و بلا فاتحِ کثرت گردید
لبنان اسرائیل کی 33 روزہ جنگ کے حوالے سے لکهی گئی ایک نظم کے چند اشعار
نقل کرتا ہوں نرالی داستاں
حق و باطل کی لڑائی کا سماں
حق پرستوں کا ادھر چھوٹا سا جھنڈ
اور ادھر اشرار کی سب ٹولیاں
مرتضیٰؑ کی امامت پر ایماں دین و مذہب کا رکنِ رکیں ہے
صاحبِ امر رب کی اطاعت نہ ہو تو دین کامل نہیں ہے
یہ بڑے ظرف کے مرحلے ہیں معترض کیوں میرا نکتہ چیں ہے
رب کے ممدوح کی مدح کرنا کام یہ ہر کسی کا نہیں ہے
ہوا ہے وقت نزولِ زبورِ عصمت کا
صد افتخارِ حرا گھر بنا امامت کا
برائے آبروئے سجدہِ نمازِ عشق
کھلا ہے باب نیا کعبہِ موّدت کا
تصورات میں ابھرے جو نقش ہائے وفا
طواف دل نےکیا کعبہِ مودت کا
وقارِ زیست علی محورِ حیات علی
دیار عشق میں حق کی تجلّیات علی
شہود و شاہد و مشہودِ کائنات علی
ہے کنزِ مخفی خدا کنزِ بیِّنات علی
رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے
دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے
تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد
اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے