قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام
پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہے
ہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے
یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیں
یہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے
شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تب
پئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے
جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے
وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے
یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے مجھے اس کا خوف نہیں کوئی
ترے راستے پہ ہوں گامزن مرا فیصلہ ترے ہاتھ ہے
میں رہ نجات تلاشتا تھا یہاں وہاں تو کھلا یہ راز
جو علی کی یاد میں ہو بسر اسی شب کا نام.نجات ہے
مرا دھن ہے عشق ابوتراب مرا خوں بہے سر کارزار
تو میں جان لوں کہ ادا ہوئی مرے مال کی بھی زکات ہے
کبھی پڑھ کتاب وجود کو تو کھلے گا تجھ پہ ورق ورق
کہیں مصطفیٰ کے ہیں تذکرے کہیں بوتراب کی بات ہے
نہیں کچھ عمل مرے پاس پر ہے مجھے یقیں ترے فیض سے
مری شاعری تری منقبت ہوئی داخل حسنات ہے
جو اضافتوں میں الجھ گیا اسے صائب اسکی خبر نہیں
کہ علی ولی کی صراط پر یہ جو موت ہے یہ حیات ہے
صائب جعفری
قم ایران
Feb 14,2022
2:34 AM
محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقی
مجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی
صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیں
سیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی
منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوال
یحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی
سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق ناب
وہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی
میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفے
مشکل گھڑی میں.جب بھی پکارا ہے یا تقی
قم.میں سلام.کرتا ہوں بی بی.کو جاکے میں
دیتے ہیں کاظمین میں مجھ کو دعا تقی
دنیا کی نعمتوں کی طلب اپنی جا مگر
ہے گوہر مراد تمہاری ولا تقی
درکار کب غلام کو نام و نمود ہے
تمغہ ہے اس کے واسطے تیری رضا تقی
پیکار کر رہا ہوں جو عالم.نماؤں سے
پایا ہے اس کا آپ ہی سے حوصلہ تقی
یہ فیصلہ خدا کا ہے مصرع نہیں فقط
ہوتا رہے ہمیشہ ترا تذکرہ تقی
جائے گا پیش کبریا صائب بھی ایک دن
نقش قدم پہ آپ کے چلتا ہوا تقی
صائب جعفری
قم.ایران
Feb 12,2022
4:47 PM
انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل*
بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے
اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے
یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے
یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر ضروری ہے
سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے
جو پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے
یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے
وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے
دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"
سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے
نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے
بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے
طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے
صائب جعفری
حسینیہ امام صادق علیہ السلام میں منعقدہ طرحی محفل مقاصدہ بسلسلہ جشن.میکاد صادقین علیہما السلام کے لئے لکھا گیا گیا طرحی کلام.....
ہستی کے گلستاں میں جو دم دیکھ رہے ہیں
سب آپ کے الطاف بہم دیکھ رہے ہیں
ہیں واسطہ در فیض حقیقت میں محمد
ہر ذرہ پہ یوں ان کا کرم دیکھ رہے ہیں
کرنی ہے انہیں ثبت جو تقدیر دو عالم
احمد کی طرف لوح و قلم دیکھ رہے ہیں
آدم ہیں در سید لولاک پہ خوش باش
جبریل کھڑے باغ ارم دیکھ رہے ہیں
عالم ہے سبھی کھوج میں جنت کی پہ عشاق
جنت کو ترا نقش قدم دیکھ رہے ہیں
مصباح کی مشکات و زجاجہ کی ہے تفسیر
اک شیشے میں دو نور بہم دیکھ رہے ہیں
دنیا کے مقر منکر سرکار یہ بد عقل
وجدان کو فقدان میں ضم دیکھ رہے ہیں
ق
اے امی لقب تیری فصاحت کے گلستان
حیرت سے عرب اور عجم دیکھ رہے ہیں
قرآن کے انداز میں حیدر کے بیاں میں
سب تیری بلاغت کا بھرم دیکھ رہے ہیں
یہ انفس آفاق حقیقت کی نگہ سے
جعفر میں محمد کا حشم دیکھ رہے ہیں
دریائے حوادث کے تھپڑے ہیں فراواں
یہ عشق محمد ہے جو کم دیکھ رہے ہیں
اے گردش دوراں نہ ستا جان لے اتنا
ہم.لوگ ابھی سوئے حرم.دیکھ رہے ہیں
آنکھوں سے رواں اشک ہیں خاموش زباں ہے
یعنی کہ.مجھے شاہ امم دیکھ رہے ہیں
ہر جلوۂ بے پردہ کے پردے میں وہ موجود
ہم اندھے ہیں غائب انہیں ہم دیکھ رہے ہیں
وہ کہتے ہیں اخلاص سے انجام دو اعمال
دنیا کی نہ پروا کرو ہم دیکھ رہے ہیں
دل کہتا ہے روضہ سے بقیعہ کو مسلسل
سرکار کئے چشم کو نم دیکھ رہے ہیں
صائب یہ عرق ریزی جعفر کا اثر ہے
کردار محمد جو علم دیکھ رہے ہیں
صائب جعفری
قم مقدس
۱۷ ربیع الاول ۱۴۴۳
بزم استعارہ کی اس ہفتہ کی نشست مورخہ Oct 01,2021 میں میر تقی میر کے مصرع پر فی البدیہہ کہے گئے اشعار
لفظوں کا اعتبار ہے حسن ادا کے ہاتھ
انسان کا وقار ہے حرف حیا کے ہاتھ
من کنت کی صدا پہ بصد شوق و ابتہاج
بیعت کو بڑھ رہے ہیں سبھی انبیا کے ہاتھ
طوفاں میں نام سید سجاد کے طفیل
کشتی ہماری کھینے لگے خود دعا کے ہاتھ
پیاسی تڑپ رہی تھی فرات آب کے لئے
غازی نے تشنگی کو.بجھایا لگا کے ہاتھ
چھت پر علم لگاتے ہیں ہم.لوگ اس لئے
سایہ فگن سروں پہ رہیں با وفا کے ہاتھ
صائب نہ بخشا جائے یہ ممکن کہاں جناب
*"ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ"*
پہلی اکتوبر ۲۰۲۱
قم ایران
قم مقدس میں عید زہرا کی.مناسبت سے منعقدہ محفل کے.لئے لکھا گیا طرحی کلام پیش خدمت ہے کچھ اضطراری وجوہات کی بنا پر محفل میں شریک نہیں ہو سکا تھا.
وادئ عشق علی میں گر ٹھکانہ چاہئے
تو جبیں ہر حال میں سجدے میں جانا چاہئے
شمع عشق حق کی لو کو تیز کرنے کے لئے
عاشقوں کو نفس کی خواہش جلانا چاہئے
.چھوڑ جاتے ہوں جو ہادی کو میان کارزار
ایسے لوگوں سے بھلا کیوں دل.لگانا چاہئے
سنت سفیانیت ہے گالیاں ہرزہ سرائی
کیا علی والوں کو بھی اس رہ پہ آنا چاہئے
ہم یقینا ہیں دعائے سیدہ، سو اب ہمیں
فاطمی تہذیب دنیا کو.سکھانا چاہئے
ماتم و گریہ کے ہمرہ مقتل و زنداں بھی ہیں
کربلا کی ساری رسموں کو.نبھانا چاہئے
ق
کربلا شام و یمن کہتے ہیں دعویدار عشق
آ ذرا میداں میں دعویٰ آزمانا چاہئے
عرصۂ اعمال میں یہ کلنا عباس ہی
ہے ثبوت عشق زینبیون مانا چاہئے
گر نہیں ہیں دشمن دیں آپ تو بتلائیے
کلنا عباس پر کیوں بلبلانا چاہئے
ق
ہو گیا ہے قلب مہدی آپ سے راضی تو.پھر
*آگئی ہے عید زہرا مسکرانا.چاہئے*
اور اگر ناراض ہے حجت خدا کی آپ سے
آپکو اشکوں کا اک دریا بہانا چاہئے
حق و باطل کی شناسائی کی خاطر صاحبو
اب نگہ سید علی سی عارفانہ چاہئے
ہے وفا کا یہ تقاضا طالبان علم دیں
جس کا کھاتے ہو اسی کا گن بھی گانا چاہئے
سن کہ یہ اشعار سب احباب ہیں اس فکر میں
کیا بھلا صائب کو آئندہ بلانا چاہئے
صائب جعفری
قم ایران
۱۶ اکتوبر ۲۰۲۱
قم مقدس میں کھرمنگ بلتستان کے طلاب کی ادبی انجمن کے زیر اہتمام طرحی منقبتی مشاعرہ میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر
*قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا*
فیضان کردگار ہے جلوہ غدیر کا
منشور کائنات ہے قصہ غدیر کا
میدان حشر حشر سے پہلے دکھا دیا
پاکر رسول حق نے اشارہ غدیر کا
آیات کی زبان میں جبریل جھوم کر
سب کو سنا رہے ہیں ترانہ غدیر کا
بلغ کی صوت ہے کبھی اکملت کی صدا
*"قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا"*
بہر علی غدیر میں حکم رسول پر
منبر بنا رہے ہیں صحابہ غدیر کا
کرب و بلا کے دشت میں شبیر کے طفیل
لکھا گیا ہے خوں سے صحیفہ غدیر کا
بعد نبی جہاں میں مسلماں نہ ہوتے خوار
اے کاش حفظ کرتے جو خطبہ غدیر کا
وسعت خدا ہی جانے علی کی حیات کی
صدیوں پہ تو ہے چھایا شبینہ غدیر کا
ایمان اور نفاق کو کرتی ہے یہ جدا
یہ بھی ہے اک عجیب سلیقہ غدیر کا
کیونکر وہ سوئے حضرت حق ہوگا گامزن
جو کاروں چنے گا نہ رستہ غدیر کا
میثم کی.طرح سولی مقدر ہے اس لئے
افکار پر ہمارے ہے سایہ غدیر کا
گرداب سے سقیفہ کے وہ لوگ بچ گئے
جن کو ہوا نصیب سفینہ غدیر کا
ہر ایک ورد کی مجھے لذت ہوئی نصیب
ورد زباں ہوا جو وظیفہ غدیر کا
وہ خواہشات دہر سے صائب ہے بے نیاز
جس کو میسر آئے خزانہ غدیر کا
صائب جعفری
۲۹ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران
حسینیہ امام صادق علیہ السلام قم اہران میں غدیر کی.طرحی محفل کے لئے لکھے اور پڑھے گئے اشعار احباب کی نذر
معراج ابتدائے کتاب غدیر ہے
عاشور اک ثبوت صواب غدیر ہے
نشاۃ ہے ثانی خم کی یہ عابد تا عسکری
صبح ظہور عین شباب غدیر ہے
مزمل اور طاھاویاسین کے لئے
*"یا ایھاالرسول خطاب غدیر ہے"*
ــــــــــــــــــــ
اے میرے بابا علی ہم یہ دھیان رکھتے ہیں
ترے عدو پہ تبرا کی ٹھان رکھتے ہیں
بنام سجدہ جبیں پر علی کے سب مجذوب
غدیر خم.کا سجائے نشان رکھتے ہیں
یہی ثبوت ہے کافی طہارت دل کا
کہ دل میں کعبہ کا دل میہمان رکھتے ہیں
برای زیست علی والے مرتضی.کی طرح
اک.امتحان پس از امتحان رکھتے ہیں
یہ اور بات کہ چپ سادھے ہیں پئے وحدت
یہ اور بات کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں
طلوع صبح ظہور اور حشر کی خاطر
*"ہم اپنے پاس غدیری اذان رکھتے ہیں"*
غلو کا فتوی لگا دیجئے مگر کہئے
شعور شعر بھی کچھ بھائی جان رکھتے ہیں
جناب طائر سدرہ پرندگان غدیر
ورائے سرحد سدرہ اڑان رکھتے ہیں
علی کی مدح کے طائر اڑان بھرنے کو
زمین شعر پر لا آسمان رکھتے ہیں
گہے غدیر پہنچ جاتے ہیں گہے کعبہ
ہم اختیار میں اپنے زمان رکھتے ہیں
ہوا کے دوش پہ رکھ دیتے ہیں بنام علی
چراغ جان کے لئے کب مچان رکھتے ہیں
صد آفرین یہ پیران ملک عشق و وفا
مئے غدیر سے دل کو جوان رکھتے ہیں
علی کے عشق کے صدقے ہم ایسے خانہ بدوش
اٹھائے گٹھری میں سارا جہان رکھتے ہیں
جہاں پہ بارہ.مہینے بہار رہتی ہے
غدیر جیساہم اک گلستان رکھتے ہیں
زمیندار کہاں کوئی ہم سا صائب ہم
ہر ایک بیت کے بدلے مکان رکھتے ہیں
۲۸ جولائی ۲۰۲۱
بزم استعارہ کی آج مورخہ ۲۲ جولائی ۲۰۲۱ کی شعری و تنقیدی نشست میں فی البدیہہ اشعار کہنے کے لئے مصرع طرح *زندگی وقف ہے برائے غدیر* دیا گیا اس پر جو اشعار مقررہ وقت میں موزوں ہوئے پیش خدمت ہیں
سر پہ بیٹھا ہے جب ہمائے غدیر
کیوں نہ دیوان ہو صدائے غدیر
خلد و.کوثر کی آبرو کے لئے
استعارہ بنی ہوائے غدیر
پیاس دیکھی مری تو رب.نے لکھی
میری قسمت میں آبنائے غدیر
بیچ دوں کائنات کے بدلے
اتنی سستی نہیں ولائے غدیر
مرحبا کہہ اٹھی شراب الست
جب ملے دل کو جام ہائے غدیر
یہ انا الحق کی جاں گداز غزل
عرش اعظم پہ گنگنائے غدیر
کربلا سے ملیں ہیں سانسیں تو
زندگی وقف ہے برائے غدیر
یہ بھی پہچان ہے ملنگوں کی
کچھ نہیں ان.کا اک سوائے غدیر
بس وہی دل ہے قلب قرآنی
جاگزیں جس میں ہے نوائے غدیر
سوچتا ہوں کہاں گذرتی رات
رہ میں ہوتی نہ گر سرائے غدیر
چور اچکوں سے ہوگیا محفوظ
دین حق اوڑھ کر ردائے غدیر
عقل کہتی ہے جان لیوا ہے
عشق کہتا ہے کر ثنائے غدیر
بہر وحدت سیئے ہوں لب لیکن
میرے جذبات گدگدائے غدیر
ہر خوشی ہے فدائے کرب و بلا
اور غم سب کے سب فدائے غدیر
اے خدا صائب حزیں کو.دکھا
دست مہدی میں اب لوائے غدیر
صائب جعفری
۲۲ جولائی ۲۰۲۱
نوٹ: مقطع سے پہلے کے تین اشعار مقررہ وقت کے بعد کے ہیں جو.محفل سے گھر آکر لکھے
مورخہ تین فروری ۲۰۲۱ کو برادر ہادی ولایتی کی رہائش گاہ پر ایک طرحی محفل سننے کے لئے پہنچا تو برادر عزیز مصر ہوگئے کہ آپ کو کلام پڑھنا ہے مصرع طرح قائم امروہوی صاحب کی.منقبت سے لیا گیا تھا سو کوئی ۵ سے ۷ منٹ میں یہ ۵ شعر موزوں ہوئے اور یہی پڑھ دیئے شاید ان کو فی البدیہہ کہہ سکتے ہیں
چاہئے بس مرضی معبود اکبر فاطمہ
لکھ رہا ہوں منقبت تیری برابر فاطمہ
انعکاس قوت خالق علی کی ذات ہے
عفت و عصمت کے آئینے کا جوہر فاطمہ
ہیں ترے دریوزہ گر کروبیاں ارض و سما
یعنی تو بھی ہے غنا میں رب کا مظہر فاطمہ
لحن.خالق میں قصیدہ آپ کا کہتے ہوئے
آیتیں اتریں ہیں اکثر آپ کے گھر فاطمہ
آپ کا صائب شفاعت اور شفا کے واسطے
اٹھ کے جائے آپ کے در سے کہاں پر فاطمہ
۳ فروری ۲۰۲۱
محترم شاعر اختر کلیم صاحب کے دولت کدے پر منعقدہ طرحی محفل منقبت میں پیش کیا گیا کلام
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں خواہر مولا رضا
فاطمہ کا آئینہ ہیں خواہر مولا رضا
باغ ہستی میں شمیم عفت و عصمت ہیں آپ
مثل زینب باخدا ہیں خواہر مولا رضا
خود کو کہتے ہیں بقیّع کا مجاور شان سے
جو ترے در کے گدا ہیں خواہر مولا رضا
قم حرم ہے اہل بیت مصطفیٰ کے واسطے
اور قم کی مالکہ ہیں خواہر مولا رضا
جو شہیدان وفا نے راہ الفت میں جلائے
ان چراغوں کی ضیا ہیں خواہر مولا رضا
گر سمجھ آئے تو کافی ہے فضیلت کے لئے
خواہر مولا رضا ہیں خواہر مولا رضا
حرف تک محدود نئیں ان کی عطا کا سلسلہ
حامل رمز عطا ہیں خواہر مولا رضا
ہم نشیں مایوس کیوں ہے کیا نہیں تجھ کو خبر
افتخار ہل اتیٰ ہیں خواہر مولا رضا
جن پہ حجت کبریا کی ہو رہی ہو خود فدا
فاطمہ زہرا ہیں یا ہیں خواہر مولا رضا
اوّل ذیقعد سے بہر تشیّع تا ابد
برکتوں کا سلسلہ ہیں خواہر مولا رضا
کیوں نہ ہو مقبول درگاہ خدا وندی میں جب
خود دعا کا مدّعا ہیں خوہر مولا رضا
پاک تقصیر و غلو سے ہے فقط وہ طائفہ
جس کی برحق رہنما ہیں خواہر مولا رضا
خامنہ ای اور خمینی سے کھلا یہ دہر پر
کس قدر معجز نما ہیں خواہر مولا رضا
پوچھتے ہیں لوگ کس بوتے پہ ہے اتنی اکڑ
سر اٹھا کھل کر بتا ہیں خواہر مولا رضا
سر قدم کرکے ذرا چلئے تو خود کھل جائے گا
وصل حق کا راستہ ہیں خواہر مولا رضا
کیوں نہ چومے گی قدم منزل مرے خود آن کر
جب کہ میری ناخدا ہیں خواہر مولا رضا
عقل ہے دنگ اور دل حیرت میں، صائب حق یہ ہے
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں خواہر مولا رضا
۱۲ جون ۲۰۲۱
اول ذیقعد ۱۴۴۲
محترم رضوان نقوی صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ محفل میلاد امام رضا کے سلسلے میں لکھی گئی طرحی منقبت
اگرچہ روح مکدر بہ دہر مائل ہے
مگر کہاں تیری جود و سخا سے غافل ہے
خلاصی شرک و غلو سے اسی کو حاصل ہے
جو قول و فعل پہ مولا رضا کے عامل ہے
جسے تمازت عشق رضا نصیب ہوئی
وہی وصال جمال خدا کے قابل ہے
عجیب مرحلہ فکر ہے عزیزوں یہ
غریب طوس کا سارا جہان سائل ہے
جناں سے دی مجھے رخصت یہ کہہ کے رضواں نے
زمیں پہ جاو کہ مشہد تمہاری منزل ہے
یہ جوف خانہ کعبہ ہے جیسے ناف زمیں
یہ ارض طوس بھی یوں کائنات کا دل ہے
رضا کے نام پہ.لنگر اٹھا تو بولی ہوا
بھنور بھی آج سفینہ کو تیرے ساحل ہے
اسی کا نام مشیت نے رکھ دیا ہے رضا
بشر میں اور خدا میں جو حد فاصل ہے
یہ فیصلہ تو بروز الست ہو ہی چکا
جو آپ تک.نہیں لائے وہ راہ باطل ہے
جو ان کے در پہ پہنچ جاؤ تو یہ یاد رہے
سخاوتوں کا سمندر امام عادل ہے
تمہارے نقش کف پا پہ سجدہ بہر جبیں
ربوبیت کا رخ بندگی پہ اک تل ہے
تمہارے در پہ ہے جاروب کش وہی انساں
جو راز عشق خدا اور نبی کا حامل ہے
نہ ڈھول تھاپ سے رغبت نہ کچھ نشہ سے غرض
گدا تمہارا حقیقت میں پیر کامل ہے
کجا یہ محفل انوار اور کجا صائب
مگر تمہارا کرم ہے جو جان محفل ہے
تمہارے عشق کی تاثیر سوا نہیں کچھ
جو شعر پڑھنے کے قابل.ہوا یہ جاہل ہے
۱۰ذیعقد ۱۴۴۲ھ
۲۱ جون ۲۰۲۱ء
بروز پیر
رات ۳:۳۵
کراچی
1. اگر کرب و بلا کی معرفت تقدیر ہوجائے
ہر اک غم کے لئے اشک عزا اکسیر ہوجائے
2. اگر اخلاص ہو تجھ میں تو اے شبیر کے شاعر
قلم شمشیر بن جائے قلم شمشیر ہوجائے
عید غدیر خم تمام مسلمانوں کو مبارک ہو
شب گذشتہ قم میں کی ایک محفل کے لئے لکھی اور پڑھی گئی طرحی منقبت بمناسبت عید غدیر خم
مئے عشق کے خم لنڈھائے گئے ہیں
بہاروں کے نغمے سنائے گئے ہیں
علی کی ولایت کا اعلان کرکے
:
*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*
مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*
انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا
طرحی مصرع: ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے
ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہے
کعبہ منا اور مروہ صفا سب کچھ ورثہ سجاد کا ہے
صنعت رد العجز علیٰ الصدر
جو لبِ صبا پہ آیا نئی صبح کا فسانہ
نئی صبح کا فسانہ با نوائے عاشقانہ
با نوائے عاشقانہ جسے گا رہا ہے بلبل
جسے گا رہا ہے بلبل ہے بہار کا ترانہ
ہے بہار کا ترانہ، جو نسیم نغمہ خواں ہے
جو نسیم نغمہ خواں ہے با سرودِ مخفیانہ
طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے
فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے
تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے
تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے
فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے
"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"
خام ہیں قلب و نظر خام ہیں افکار ابھی
جذبہِ عشق کو اک آنچ ہے درکار ابھی
میں سرِ دار اناالحق کی صدا دیتا ہوں
عشق کا سودا مرے سر پہ ہے اسوار ابھی
قلب میں اترا ہوا عشق علی گر ہوگا
دل سے پھر اترا ہوا دنیا کا سب زر ہوگا
عید کی خوشیاں منائے گا وہی پڑھ کے درود
مثل قنبر جو یہاں بندہ حیدر ہوگا
پڑھتا ہے قصیدہ یوں قرآن خدیجہ کا
اللہ قَدَر داں ہے ہر آن خدیجہ کا
آیاتِ الٰہی کی تنزیل کو خالق نے
چن رکھا تھا اوّل سے دالان خدیجہ کا
علی کے جو نہیں شیدا تبرا ان پہ کرتے ہیں
جو شیطانوں کے ہیں آقا تبرا ان پہ کرتے ہیں
وہ جن پر مارنا پتھر ہے فرضِ حج ،ہے اسرائیل
اور انگلستان و امریکہ، تبرا ان پہ کرتے ہیں
منقبت مزاح
کچھ گلوں کی ثنا کی بھی ہو جائے
یوں معطر ہوا بھی ہو جائے
کچھ تولا کی بات کیجے کہ یوں
اہلِ حق کی ثناء بھی ہو جائے
منقبت
ہر نفس بس یہ کیا ہے با صفا سجاد نے
نقش عبد اللہ کو روشن کیا سجاد نے
بے نواوں کو عطا کرکے دعاوں کی نوا
ہم سخن بندوں کو خالق سے کیا سجاد نے
منقبت
جو چل رہا سلیقے سے کاروبار تمام
ہے کائنات کا مولا پہ انحصار تمام
ثناء علی کی بیاں کر نہیں سکے گا کبھی
نہ لے جو مدح کو قرآن مستعار تمام
منقبت
در وفا پر کھڑا ہوں دل میں بسائے مولا رضا کی خوشبو
ہوں منتظر جسم و جاں پہ برسے سخائے مولا رضا کی خوشبو
یہ آرزو ہے کہ معجزہ یہ دکھائے مولا رضا کی خوشبو
نصیب چشمِ شعور ہو نقشِ پائے مولا رضا کی خوشبو
منقبت
اوہام سے حیات کا دامن چھڑا کے دیکھ
الزام عشق شہ کا ذرا تو اٹھا کے دیکھ
تجھ پر کھلے گا عشق کے معنی ہیں کربلا
پردے ہوائے نفس کے اک دن ہٹا کے دیکھ
۱۰۹۔ منقبت
نام فردوس پہ کندہ ہے ابوطالب کا
بزمِ لاہوت میں چرچا ہے ابو طالب کا
تم سمجھتے ہو بھتیجا ہے ابو طالب
یہ محمد تو عقیدہ ہے ابو طالب کا
منقبت
عدوئے آل سے بڑھ کر کوئی ابتر نہیں ملتا
ہے قرآں حفظ لیکن معنئِ کوثر نہیں ملتا
محبت آلِ احمد کی اگر واجب نہیں واعظ
فقط پڑھ لینے سے کلمہ سکوں کیوں کر نہیں ملتا
منقبت
گذرے پت جھڑ کے زمانے آ گیا سرور کا پھول
قدسیوں کے ہیں ترانے آگیا سرور کا پھول
وجد میں آئی صبا ڈھلنے لگے نغمے نئے
دل لگا خود گنگنانے آ گیا سرور کا پھول
نعت
اسی کو زیبا ہے یہ دعوئے ولائے رسول
جو ہو بلال کی صورت سے آشنائے رسول
علی سا بھائی ہو جس کا بتول سی دختر
نہیں ہے کون و مکاں میں کوئی سوائے رسول
منقبت
لکھ رہا ہوں میں جو ثنائے بتول
مجھ کو غلام اپنا بنائے بتول
بن گیا ہوں میں جو گدائے بتول
ہے یہ بہت خاص عطائے بتول
۔منقبت
جمالِ روئے تاباں کی زیارت کی تمنا ہے
قدم بوسئِ تصویرِ نبوت کی تمنا ہے
نظر کے سامنے درکار ہے قبلہ مودت کا
نمازِ عشق کے سجدوں کو رفعت کی تمنا ہے
منقبتی غزل
زمانہ چھوڑ کے اب دل فگار آیا ہے
ترے حضور یہ سجدہ گذار آیا ہے
وصال کی جو تمنا تھی اس تمنا پر
شبِ فراق کی منزل گذار آیا ہے
منقبت
ننگِ انسانیت کو ردا مل گئی
چاک داماں کو زرّیں قبا مل گئی
پھر سے آئیں وفا کا مرتب ہوا
عشق کے آئینوں کو جلا مل گئی
۔منقبت
آپ سے ہے آشکارا یا امامِ عسکری
عشقِ ربانی کا دھارا یا امامِ عسکری
لفظ بے شک ہیں جدا گانہ جدا معنی نہیں
چرخِ حکمت کا ستارہ یا امامِ عسکری
منقبت
اگر آل محمد سے محبت ہو نہیں سکتی
تو پھر فکر و عمل کی بھی طہارت ہو نہیں سکتی
جبیں سجدے کرے لاکھوں کسی کے آستانے پر
نہ جھک پائے اگر دل تو عقیدت ہو نہیں سکتی
منقبت
التجاء آپ سے میری ہے بس اتنی اے بی بی
دیجئے رنج و مصائب سے خلاصی بی بی
بہرِ شبیر ہر اک طوقِ گلو گیر ہٹے
نفس کی قید سے مل جائے رہائی بی بی
منقبت
ہے چوکھٹ سے رواں دریائے عرفانِ خدا بی بی
مثالِ مرقدِ زہرا ہے مرقد آپ کا بی بی
سخاوت کا جہاں بھر میں ہے جاری سلسلہ بی بی
کرم سے آپ کے ہیں فیض یاب ارض و سما بی بی
- منقبت
نکہت ہے جذبِ عشق کی قرطاس کی مہک
پیدا ہے لفظ لفظ سے احساس کی مہک
بحرِ ثنا میں رستہ بنانے لگا قلم
فکر و شعور پا گئے الیاس کی مہک
- منقبت
اصیل اصلِ انما ضمیر کربلا حسین
جلیلِ سرِّ ہل اتیٰ عبیر کربلا حسین
دلیلِ رمز لا الہ، صفیر کربلا حسین
غسیل نورِ کبریا، منیر کربلا حسین
منقبت
وائے حسرت کہ نہیں ذوقِ عقیدت کامل
ورنہ وہ آج بھی ہیں لطف و کرم پر مائل
ہر نَفَسْ الجھا ہوا نَفْسْ کے جنجال میں ہے
حد مگر یہ ہے نظر آتا نہیں کوئی خجل
منقبت
نہالِ دل نے مہکائے بجائے خود ثناء کے پھول
مئے الفت نے رنگیں کر دئیے عشق و ولا کے پھول
فلک نازاں زمیں ساداں فضائیں گل فشاں ہیں آج
مہکتے ہیں چمن میں صنعتِ رب علا کے پھول
۔منقبت
ایسا کچھ سلسلہ بھی ہوجائے
بے نواء لب کشا بھی ہو جائے
سہل یہ راستہ بھی ہو جائے
گر دعا مدعا بھی ہوجائے
شعر وہ ہے جہاں خیال کے ساتھ
شامل ان کی رضا بھی ہو جائے
منقبت
جو بھی کرے گا دل سے اطاعت حسین کی
اس کو نصیب ہوگی زیارت حسین کی
وہ بڑھ کے کاٹ دی گی ہر اک شیطنت کا ہاتھ
جس قوم پر بھی ہو گی نظارت حسین کی
ہے دوست یار شیخ و امیہ کی آل کا
جو معتقد نہیں ہے علی کے کمال کا
مدحِ علی نہ لکھے تو جائے گا بھاڑ میں
شاعر جنوب کا ہو کہ شاعر شمال کا
کچھ ہم پہ نہیں موقوف ثنا ہر ذرہ ہے گویا مدحت میں
خوشبوئے ولائے آلِ نبی شامل ہے گلوں کی نکہت میں
پرکیف فضائے دہر ہوئی ہے وجد میں کوثر جنت میں
جوبن پہ ہے فطرت کی دلہن خلقت ہے ڈوبی رحمت میں
منقبت
پا گئی ذائقہِ حق جو زباں مشہد میں
فکر بالیدہ ہوئی حرف جواں مشہد میں
ہستئِ کفر ہوئی ایسے دھواں مشہد میں
عقل حیراں ہے جنوں رقص کناں مشہد میں
نعت
ہر خوشی آپ کے خیال سے ہے
منفعل کب یہ ماہ و سال سے ہے
اعتبارِ جہانِ رنگ و بو
مرتبط شاہِ خوش خصال سے ہے
منقبت
جو نقش پہ حیدر کے چلتا نظر آتا ہے
انساں وہ فرشتوں سے بالا نظر آتا ہے
کعبہ سے جو لپٹا ہے حیدر کی عداوت میں
ساحل پہ کھڑا ہوکر پیاسا نظر آتا ہے
اوّل ہے جو خلقت میں افضل ہے جو خلقت سے
کچھ عقل کے اندھوں کو چوتھا نظر آتا ہے
منقبت
ہے راستہ خدا سے یہی اتصال کا
تابع عمل ہو عشقِ علی کے خیال کا
انسان قدسیوں سے سوا پا گیا کمال
قطرہ پیا جو عشق کے آبِ زلال کا
منقبت
خدا کے گھر سے اٹھا ہے خمار حیدر کا
ہوا حرم کو رواں مے گسار حیدر کا
خزاں کو راہی ملکِ عدم بنانے کو
سنارہی ہے قصیدہ بہار حیدر کا
رقم جو زیست کے صفحہ پہ نام حیدر ہے
تو خلد بھی ہے مری میرا حوضِ کوثر ہے
جو خود میں ڈوبنے والوں کو بخشتا ہے حیات
ولائے حیدرِ کرار وہ سمندر ہے
تقاضہ ہوگیا پورا بصارت کا بصیرت سے
نبوت ہوگئی سرشار دیدارِ امامت سے
اتارا مہبطِ عصمت پہ رب نے سورہِ کوثر
بھری آغوشِ زہرا رب نے قرآں کی عبارت سے
کر نہ پائے سورما جو خنجر و شمشیر سے
کام ابن مرتضیٰ نے وہ لیا تحریر سے
برّشِ شمشیر نے قرطاس سے کھائی شکست
تاج ششدر رہ گیا یوں کِلک کے شہتیر سے
نگاہ و دل کی سازش ہے خدا کی مہربانی ہے
سرِ قرطاس خونِ دل کی یہ شعلہ بیانی ہے
وہ جس کے کِلک سے شمشیرِ برّاں پانی پانی ہے
دیارِ تیغ سب اس کے قلم کی راج دھانی ہے
حصارِ نور ہے امن و اماں کا سایہ ہے
حسن کا نام ہے اسلام جس سے زندہ ہے
نماز عشق کے سجدوں میں دل ہوا مشغول
نگہ کے سامنے اس وقت میری کعبہ ہے
عالم کون کی تعلیل علی جانتے ہیں
لوحِ محفوظ کی تحلیل علی جانتے ہیں
نور بر دوش ہے کعبہ کی زمیں ، تو قدسی
آپ کے نور کی تجلیل علی جانتے ہیں
اس لئے گود میں احمد کی سنایا قرآں
قبلِ تنزیل بھی تاویل علی جانتے ہیں
یاعلی جب کہا، کہا نہ ہوا
آج تک ایسا سانحہ نہ ہوا
کھکھلاتی جدارِ کعبہ پھر
ایسا مولود دوسرا نہ ہوا
انعکاسِ صفاتِ رب کے لئے
ان سا کوئی بھی آئینہ نہ ہوا
ہیں ستون عرش، رمزِ لوح و کرسی فاطمہ
تہہ بہ تہہ ظلمات میں نورِ الہی فاطمہ
کر کے سرور کو طلب اللہ نے اسریٰ کی شب
مثل قرآن قلبِ احمد پر اتاری فاطمہ
نسیمِ جانفراء صحنِ حرم میں یہ پکار آئی
خدا کا شکر گلزارِ مودت میں بہار آئی
کھلا ہے غنچہِ بنتِ نبی نرجس کے آنگن میں
ہوئے مدہوش قدسی بھی جو بوئے گل عذار آئی
ایسا کچھ اہتمام ہو جائے
مدحِ خیر الانام ہوجائے
ان سے منسوب ہوکے نغمہِ دل
قابلِ احترام ہو جائے
فکر کے پرکار کر تدویر خاص
ذہن میں ابھری ہے اک تصویر خاص
فہم، کر فکرِ رسا سے ساز باز
کر فراست آج کچھ تدبیر خاص
روشنائی لے شعورِ عشق سے
جس دم خیال سوئے شہِ کربلا گیا
قرطاس نورِ عشق و وفا میں نہا گیا
بوئے ریاضِ خلد سے مہکے دل و دماغ
خامہ سلیقہ مدحت سرور کا پا گیا
ستارِ عشق پر چھڑی ہے منقبت حسین کی
صبا سے آرہی ہے بوئے انسیت حسین کی
فرشتے دے رہے ہیں آج تہنیت حسین کی
طرحی ردیف "سے بہتر "
کوئی ادراک لے آ تو مرے ادراک سے بہتر
کہ دنیا میں نہیں کوئی شہِ لولاک سے بہتر
لباسِ فقر ہے فخرِ محمد، جاننے کے بعد
نہ بھائی قلب کو پوشاک اس پوشاک سے بہتر
مصرع ہزار بیت میں یہ انتخاب ہے
عیدِ غدیر حکمِ رسالت مآب ہے
روشن ہوا ہے جس سے مرا ماہتابِ فکر
عشق علی کا سینہ میں وہ آفتاب ہے
جو گوشِ فکر سے ٹکرائی گفتگوئے امیر
خیال جانے لگا خودبخود بسوئے امیر
خدا کا شکر ہے باقی ہوں اپنی فطرت پر
کہ پاک طینتِ آدم ہے جستجوئے امیر
صولتِ دینِ خدا ہے دبدبہ عباس کا
ماوراء ادراک سے ہے مرتبہ عباس کا
جلوہِ نورِ دعائے بنتِ احمد ہے وجود
مصحفِ تہذیبِ حیدر باوفا عباس کا
جوبن پہ ہے جہان میں آیا شباب حق
بطحا سے وہ طلوع ہوا آفتاب حق
بن کر جوابِ طعنہِ ابتر بہ کرُّ و فر
آغوش میں خدیجہ کی ہے انتخابِ حق
تبلیغِ دین و شرعِ خدا وند کے لئے
اترا بشکلِ بنتِ پیمبر نصابِ حق
عرفان رب کے گل کی مہک احساں ہے امامِ صادق کا
قلب عشاقِ نبی کی دھڑک، احساں ہے امامِ صادق کا
جہل و شک کے اندھیاروں میں، الحاد و کفر کی آندھی میں
یہ آتشِ علم حق کی لپک، احساں ہے امامِ صادق کا
جادہِ عرفاں پہ چلنے کا سلیقہ سیکھ لیں
منزلوں کے پار اترنے کا قرینہ سیکھ لیں
فاطمہ کے نام کی تسبیح پڑھ کر آپ بھی
کشفِ محجوباتِ عالم کا وظیفہ سیکھ لیں
یوں لفظ مستعار ہیں قرآن کے لئے
لکھنی ہے منقبت شہِ ذیشان کے لئے
تعمیر کرکے کعبہ یہ کہنے لگے خلیل
تیار ہوگیا ہے یہ مہمان کے لئے
جو عشق میں حیدر کے گرفتار ملے گا
اللہ و محمد کا وفا دار ملے گا
جو عزمِ ولایت کا علم دار ملے گا
باطل سے وہی بر سرِ پیکار ملے گا
دربدر یونہی بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
پوچھئے سورہِ انساں سے سخاوت کیا ہے
یہ کھلا سجدہ زہرا سے حقیقت کیا ہے
عبد و معبود کے رشتے کی صداقت کیا ہے
پڑھ کر ثنائےمرتضوی، عادیات میں
آئی نظر حیات کی صورت ممات میں
ہنگام یہ ولادتِ شاہِ نجف کا ہے
پھیلا ہوا ہے نورِ خدا شش جہات میں
۰۶ اپریل ۲۰۱۷ء، ۸ رجب ۱۴۳۸
۳۶۔ منقبت
ہیں عرب کا وقار شاہ چراغ
اور عجم کی بہار شاہ چراغ
نامِ نامی ہے آپ کا احمد
اور ہے مستعار شاہ چراغ
کُھل رہا ہے دنیا پر مَہر ِ نور کا در بِھی
وجد میں ہے خالق کے مِہر کا سمندر بھی
مل رہا ہے عالم کو مژدہِ حیاتِ نو
اور قدرتِ حق کا سج رہا ہے محضر بھی
یہ پیام آزادی دیتی ہے غلاموں کو
الطاف و عنایاتِ الٰہی کا یہ در ہے
گھر فاطمہ زہرا کا بڑی شان کا گھر ہے
زخّارِ کرامات ہے رحمت کا سمندر
افلاک کی وسعت ہے جہاں گم یہ وہ در ہے
رہنا ہے مجھے مرضئِ معبود پہ شاکر
دروازہِ زہرا پہ رکھا اس لئے سر ہے
آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا
دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا
”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور
”لولو و مرجان" کو عصمت کا دھارا مل گیا
تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے
خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا
نبی کا تم نے کیا اونچا نام ہے زینب
خدا کا تم پہ درود و سلام ہے زینب
فضلتیں ہوئیں جس پر تمام ہے زینب
کہ عکسِ صولتِ شاہِ انام ہے زینب
عقیلہِ بنی ہاشم سفیر کرب و بلا
تجھی سے دیں کا ہوا انصرام ہے زینب
شمیمِ ارم گنگانے لگی
علی کے قصیدےسنانے لگی
برآتی جو دیکھی مراد وجود
جدارِ حرم مسکرانے لگی
حیات بخشی ہر اک شے کو رب نے آب سے ہے
اور آب آب کی قائم علی کی آب سے ہے
کلامِ حق ہی نہیں منتسب بہ نقطہِ باء
تمام عالمِ امکاں اس انتساب سے ہے
حقیقتِ علوی ہے یہ سرِّ فیضِ خدا
جب نہیں حضرت انساں پہ عیاں شانِ بتول
پھر بھلا کون قصیدہ کہے شایانِ بتول
ناطقے بند، زباں گنگ، تخیُّل خاموش
پا کے اللہ و محمد کو ثناء خوانِ بتول
ہاشمی خوں کا دبدبہ زینب
صولتِ دینِ مصطفیٰ زینب
نازشِ گلشنِ حیاء زینب
نکہتِ باغِ مرتضیٰ زینب
مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار
.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا
جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا
بے ولائے علی نبی کی ثنا
شُکْر میں ایسا بے وفا نہ ہوا
سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی
مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا
مرتضیٰؑ کی امامت پر ایماں دین و مذہب کا رکنِ رکیں ہے
صاحبِ امر رب کی اطاعت نہ ہو تو دین کامل نہیں ہے
یہ بڑے ظرف کے مرحلے ہیں معترض کیوں میرا نکتہ چیں ہے
رب کے ممدوح کی مدح کرنا کام یہ ہر کسی کا نہیں ہے
ہوا ہے وقت نزولِ زبورِ عصمت کا
صد افتخارِ حرا گھر بنا امامت کا
برائے آبروئے سجدہِ نمازِ عشق
کھلا ہے باب نیا کعبہِ موّدت کا
تصورات میں ابھرے جو نقش ہائے وفا
طواف دل نےکیا کعبہِ مودت کا
وقارِ زیست علی محورِ حیات علی
دیار عشق میں حق کی تجلّیات علی
شہود و شاہد و مشہودِ کائنات علی
ہے کنزِ مخفی خدا کنزِ بیِّنات علی
.
۱.کفر و نفاق و شرک کے مرگ و مفر کا نام
شعبان ہے لقائے خدا کے سفر کا نام
۲.عالم بعرض وسعتِ شوقِ وصالِ یار
ہے نفسِ مطمئنہ کی فتح و ظفر کا نام
سلیقہ ایک ہی جیسا محمد اور جعفر کا
قرینہ ایک ہی ابھرا محمد اور جعفر کا
ہے ریشہ ایک ہی حقا محمد اور جعفر کا
نہیں فرق اک نہیں ابن محمد اور محمد میں
شمائل میں خصائل میں فضائل اور ابجد میں
نتیجہ ایک ہی نکلا محمد اور جعفر کا
۵ جمادی الاولیٰ جناب زینب کبریٰ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے چند اشعار
ـــــــــــــــ
اسی عنوان سے کھولا گیا باب زینب
دین اسلام ہے دراصل شباب زینب
.....
عالم خلق میں تکرار کا امکاں ہی نہیں
دہر میں ڈھونڈئیے اب آپ جواب زینب